وردی کے متوالے سانپ۔۔۔غزل

مٹی سے مٹیالے سانپ
زہریلے پھن والے سانپ
ہر جمہوری دور میں دیکھے
وردی کے متوالے سانپ
ظلمت چاہنے والے نکلے
روشنیوں کے ڈھالے سانپ
کیسے جی لیں جب بن جائیں
اپنے ہی گھر والے سانپ
من انکھیوں میں ڈول رہے ہیں
کان میں پہنے بالے سانپ
میری راہ میں بن بیٹھے ہیں
میرے پاؤں کے چھالے سانپ
جسم کو نیلا کر دیتے ہیں
طنز کے نشتر بھالے سانپ
شب بھر اس دل کو ڈستے ہیں
کالی زولفوں والے سانپ
دھرتی پر پھنکار رہے ہیں
اس مٹی کے پالے سانپ
مجھ میں میرے، تجھ میں تیرے
ہر سو دو منھ والے سانپ
ہر سو ہم کو گھیرے کھڑے ہیں
ہاتھ میں ہاتھ کو ڈالے سانپ
اپنے ہاتھوں پالے ہیں یہ
آفت کے پر کالے سانپ
الٹا تو یہ راز کھلا ہے
اوڑھے تھے دوشالے سانپ
نا اہلی سے بن جاتے ہیں
دریا نہریں کھالے سانپ
گھس بیٹھے ہیں ایوانوں میں
وہ بھی کانوں والے سانپ
ہر ناگن زلفوں والی کے
چومیں کان کے بالے سانپ
قوم کی دولت پر بیٹھے ہیں
کب سے کنڈلی ڈالے سانپ

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں