ؓسیدہ ام ورقہ بنت نوفل

1461

طالب ہاشمی
اصل نام معلوم نہیں ہے، باپ کا نام عبداللہ تھا اور جدا علیٰ کانوفل۔ چنانچہ انہیں ام ورقہ بنت عبداللہ بنت نوفل دونوں طرح پکارتے تھے۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں ان کا سلسلہ نسب اس طرح لکھا ہے: ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر بن نوفل۔ ہجرت نبوی کے بعد شرف اسلام اور نبیؐ کی بیعت سے بہرہ ور ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے نبیؐ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ غزوۂ بدر کی تیاری ہونے لگی تو انہوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ غزوۂ بدر کی تیاری ہونے لگی تو انہوں نے نبیؐ سے درخواست کی کہ مجھے بھی اس غزوہ میں اپنے ہمراہ لے چلیے میں زخمیوں کی خدمت اور مریضوں کی دیکھ بھال کروں گی۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھے راہ حق میں شہید ہونے کی سعادت بخشے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’تم گھر میں ہی رہو اللہ تعالیٰ تمیں پہلی شہادت نصیب کرے گا‘‘۔ انہوں نے نبیؐ کے ارشاد کی تعمیل کی اور غزوہ پر جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ عبادت سے بڑا شغف تھا، چونکہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اس لیے نبیؐ نے ان کو عورتوں کا امام مقرر فرمادیا تھا اور انہوں نے ان کی درخواست پر ایک مؤذن بھی مقرر فرمایا دیا تھا ان کی اذان سن کر عورتیں نماز با جماعت ادا کر نے سیدہ ام ورقہؓ کے گھر آجاتی تھیں۔
علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں بیان کیا ہے کہ سرور عالمؐ ان پر بے حد شفیق تھے کبھی کبھی بعض صحابہؓ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے آؤ شہیدہ کے گھر چلیں۔ عہد رسالت سے متعلق ان کے اسی قدر حالات معلو م ہیں۔
حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ سیدہ ام ورقہؓ نے اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی سے وعدہ کیا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ ان بدبختوں نے جلد آزاد ہونے کے لیے ایک رات کو چادر سے ان گلا گھونٹ دیا۔ صبح کو سیدنا عمر فاروقؓ نے لوگوں سے کہا کہ آج خالہ ام ورقہؓ کے قرآن پڑھنے کی آواز نہیں آئی، معلوم نہیں ان کا کیا حال ہے؟ اس کے بعد سیدہ ام ورقہؓ کے گھر گئے دیکھا کہ مکان کے ایک گوشہ میں لپٹی بے جان پڑی ہیں۔
سخت غمزدہ ہوئے اور فرمایا اللہ کے رسولؐ سچ فرمایا کرتے تھے کہ شہید کے گھر چلو۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے یہ خبر بیان کی۔ غلام اور لونڈی دونوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ وہ گرفتار ہو کر آئے اور امیر المؤمنین کے حکم کے مطابق انہیں اس بھیانک جرم کی پاداش میں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اہل سیر نے لکھا ہے یہ دونوں وہ پہلے مجرم ہیں جن کو مدینہ منورہ میں سولی دی گئی۔
ابن سعد کا بیان کہ سیدہ ام ورقہؓ نے نبیؐ سے کچھ حدیثیں بھی روایت کی ہیں، لیکن کسی دوسری کتاب میں ان کی روایت حدیث کا ذکر نہیں آیا۔