حیاء علوم الدین،للام غزالی

1722

غازی عزیز

حافظ زید الدین العراقی (م806ھ) جنہوں نے ’’حیاء علوم الدین‘‘ کی احادیث کی تخریج یعنی راوی اور حدیث کا درجہ اور اس کی حیثیت بیان کی ہے کہتے ہیں کہ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم اسلام کی اعلیٰ تصنیفات سے ہے۔ عبدالغافر فارسی جو امام غزالیؒ کے معاصر اور امام الحرمین کے شاگرد تھے، کہتے ہیں کہ احیاء العلوم کے مثل کوئی کتاب اس سے پہلے تصنیف نہیں ہوئی۔ شیخ محمد گارزونی کا دعویٰ تھا کہ اگر دنیا کے تمام علوم مٹادیے جائیں تو میں امام غزالی کی احیاء العلوم کی مدد سے ان تمام کو دوبارہ زندہ کردوں گا‘‘۔ (تعریف الاحیاء بفضائل الاحیاء از شیخ عبدالقادر الحسنی)
مولانا شبلی کہتے ہیں:
’’احیاء العلوم میں عام خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل عجیب اثر ہوتا ہے ہر فقرہ نشتر کی طرح دل میں چبھ جاتا ہے ہر بات جادو کی طرح تاثیر کرتی ہے ہر لفظ پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے‘‘۔ (الغزالی مصنفہ شبلی نعمانی)
مولانا ابو الحسن علی ندوی کہتے ہیں:
’’حافظ ابن الجوزیؒ نے بھی بعض باتوں سے اختلاف کے باوجود اس کتاب کی تاثیر اور مقبولیت کا اعتراف کیا ہے اور اس کا خلاصہ ’’منہاج القاصدین‘‘ کے نام سے لکھا ہے‘‘۔ (تاریخ دعوت وعزیمت)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ نے احیاء العلوم کی اجمالی تعریف کی ہے اور لکھا ہے:
’’احیاء میں عموماً ان کا کلام اچھا ہے‘‘۔ (فتاویٰ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ)
ایک مقام پر حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’ان تمام خامیوں کے باوجود احیاء میں ان مشائخ صوفیہ کا جو صاحب معرفت واستقامت تھے۔ اعمال قلوب کے بارے میں بہت سا ایسا کلام ہے جو کتاب وسنت کے موافق ہے اور جس کا اکثر حصہ قابل قبول ہے۔ اسی بنا پر اس کتاب کے بارے میں علما کی مختلف آراء ہیں اور سب اس کے مخالف نہیں ہیں‘‘۔ مولانا ابوالحسن علی الندوی ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’احیاء العلوم نری تنقیدی کتاب نہیں ہے۔ وہ اصلاح وتربیت کی ایک جامع اور مفصل کتاب ہے۔ اس کے مصنف نے ایک ایسی کتاب تالیف کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک طالب حق کے لیے اپنی اصلاح وتربیت اور دوسروں کی تعلیم وتبلیغ کے لیے تنہا کافی ہوسکے۔ اور بڑی حد تک ایک وسیع اسلامی کتب خانے کی قائم مقامی کرسکے اور دینی زندگی کا دستور عمل بن سکے۔ اس لیے یہ کتب عقائد وفقہ تذکیہ نفس وتہذیب اخلاق اور حصول کیفیت احسانی (جس کے مجموعے کا نام تصوف ہے) تینوں شعبوں کی جامع ہے۔ اس کتاب کی ایک نمایاں صفت اس کی تاثیر ہے۔ ان حالات وکیفیات کا پڑھنے والوں پر بعض اوقات یہ اثر پڑتا ہے کہ دل دْنیا سے بالکل اچاٹ ہوجاتا ہے۔زہد وتقشف کا ایک شدید اور بعض اوقات غیر معتدل رجحان پیدا ہوتا ہے۔ خوف وہیبت کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو کبھی کبھی صحت ومشاغل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ خود مصنف پر اس کتاب کی تصنیف کے زمانے میں ہیبت کا غلبہ تھا اس لیے بہت سے مشائخ مبتدیوں کو اس کتاب کے مطالعے کا مشورہ نہیں دیتے‘‘۔ (تاریخ دعوت وعزیمت)
ایک اور مقام پر مولانا ابوالحسن علی الندوی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’احیاء العلوم اس موضوع (اخلاق اسلامی اور فلسفہ اخلاق) پر بھی ان کا ایک کارنامہ ہے۔ امراض قلب اورکیفیات نفسانی پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی وقت نظر اور سلامت فکر کا نمونہ ہے‘‘۔ (تاریخ دعوت وعزیمت مصنفہ ابوالحسن علی الندوی)