صلہ رحمی

369

نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے: ’’صلہ رحمی سے محبت بڑھتی ہے… مال بڑھتا ہے… عمر بڑھتی ہے… رزق میں کشادگی ہوتی ہے… آدمی بری موت نہیں مرتا… اس کی مصیبتیں اور آفتیں ٹلتی رہتی ہیں… ملک کی آبادی اور سرسبزی بڑھتی ہے… جنت میں جانے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے… صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ اپنا رشتہ جوڑتا ہے… جس قوم میں صلہ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے نسبوں کو سیکھو، تا کہ اپنے رشتے داروں کو پہچان کر ان سے صلہ رحمی کر سکو، فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے سے محبت بڑھتی ہے، مال بڑھتا ہے اور موت کا وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (ترمذی)
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر بڑھ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے صلہ رحمی کرے۔ (بخاری ومسلم)
جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر بڑھے اور اس کے رزق میں کشادگی ہو اور وہ بری موت نہ مرے تو اس کو لازم ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اوراپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہے۔
جو شخص صدقہ دیتا رہتا ہے اور اپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہتا ہے اس کی عمر کو اللہ دراز کرتا ہے اور اس کو بری طرح مرنے سے بچاتا ہے اور اس کی مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرتا رہتا ہے۔
رحم، خدا کی رحمت کی ایک شاخ ہے، اس سے اللہ نے فرما دیا کہ جو تجھ سے رشتہ جوڑ لے گا اس سے میں بھی رشتہ ملاؤں گا اور جو تیرے رشتے کو توڑ دے گا اس کے رشتے کو میں بھی توڑدوں گا۔ (بخاری)
فرمایا کہ اللہ کی رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتے ناطوں کو توڑتا ہو۔ بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس کا مستوجب نہیں کہ اس کی سزا دنیا ہی میں فوراً دی جائے اور آخرت میں بھی اس پر عذاب ہو۔ (الترغیب والترہیب)
فرمایا کہ جنت میں وہ شخص گھسنے نہ پائے گا جو اپنے رشتے ناطوں کو توڑتا ہو۔ (بخاری ومسلم)
اللہ کے رسولؐ کہیں تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک اعرابی نے آکر آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی اور کہا کہ یا رسول اللہؐ! مجھ کو ایسی بات بتائیے جس سے جنت ملے اور دوزخ سے نجات ہو، آپ نے فرمایا کہ تو ایک اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کر، نماز پڑھ، زکوٰۃ دے اور اپنے رشتے ناطے والوں سے اچھا سلوک کرتا رہے۔ جب وہ چلا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اگر میرے حکم کی تعمیل کرے گا تو اس کو جنت ملے گی۔ (بخاری ومسلم)
آپؐ نے فرمایا ہے کہ ا للہ تعالیٰ کسی ایک قوم سے ملک کو آباد فرماتا ہے اور اس کو دولت مند کرتا ہے اور کبھی دشمنی کی نظر سے ان کو نہیں دیکھتا، صحابہ کرامؓ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اس قوم پر اتنی مہربانی کیوں ہوتی ہے؟ فرمایا کہ رشتے ناطے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ان کو یہ مرتبہ ملتا ہے۔
فرمایا جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے اس کو دنیا وآخرت کی خوبیاں ملتی ہیں او راپنے رشتے ناطے والوں سے اچھا سلوک کرنے اور پڑوسیوں سے میل جول رکھنے اور عام طور پر لوگ سے خوش خلقی برتنے سے ملک سرسبز اور آباد ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی عمریں بڑھتی ہیں۔ (الترغیب والترہیب)
ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ سے ایک بڑا گناہ ہو گیا ہے میری توبہ کیوں کر قبول ہو سکتی ہے؟ آپؐ نے پوچھا کہ تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا کہ خالہ زندہ ہے، اس نے کہا جی ہاں! فرمایا کہ تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔
ایک بار سرکار دو عالمؐ نے مجمع میں یہ فرمایا: جو شخص رشتے داری کا پاس ولحاظ نہ کرتا ہو وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے، یہ سن کر ایک شخص اس مجمع سے اٹھا اور اپنی خالہ کے گھر گیا، جس سے کچھ بگاڑ تھا، وہاں جاکر اس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور قصور معاف کرایا۔ پھر آکر دربار نبوت میں شریک ہو گیا۔ جب وہ واپس آگیا تو سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتے داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔
فرمایا کہ ہر جمعے کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل اور عبادتیں اللہ کے دربار میں پیش ہوتی ہیں، جو شخص اپنے رشتے داروں سے بد سلوکی کرتا ہے اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ (الترغیب والترہیب)