ٹکے بھاؤ

362

قیامِ پاکستان کو پون صدی کا عرصہ بیت چکا ہے مگر فیصلہ ساز قوتیں یہ فیصلہ ہی نہ کر سکیں کہ ملک سیاست دانوں کو چلانا ہے یا مفاد پرستوں کو۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین اختلاف کا سب سے بڑا سبب یہی تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ جمہوریت پسند تھے وہ مفاد پرستوں کو ایوانِ اقتدار سے دور رکھنا چاہتے تھے مگر مغربی پاکستان خاص طور پر پنجاب کی فیصلہ ساز قوتوں نے اس اختلافِ رائے کو انا کا مسئلہ بنا لیا اور اْنہیں سزا دینے کے لیے علٰیحدگی کی راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا اور سزا جزا بن گئی۔ آج بنگلا دیش کی معیشت اتنی مستحکم ہے کہ ہمارا روپیہ اس کے ٹکے سے بھی کمتر ہوگیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جسے کوئی بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں مگر اس کی معیشت اتنی مضبوط ہے کہ مہنگائی نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور ہم عالمی مالیاتی اداروں کے در پر سرنگوں ہیں اور اس اعزاز پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں اور اسے خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیتے نہیں تھکتے ہمارے روپے کے سامنے افغانستان کی کرنسی کی کوئی قدر نہیں تھی مگر آج ہمارا روپیہ افغانستان کی کرنسی کے آگے بے قدر ہوتا جارہا ہے اْنہوں نے ڈالر کی قدر کو اتنا بے قدر کردیا ہے کہ مہنگائی سر اْٹھانا بھول گئی ہے اور ہم مہنگائی کے رو برو سر اْٹھانے کے قابل بھی نہ رہے کیونکہ وہاں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے حکمران ہیں اور ہمارے ہاں مفاد پرستوں نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ طالبان نے برسرِاقتدار آکر کسی کے سامنے نہ تو جھولی پھیلائی اور نہ ہی کشکول پکڑا بلکہ ان لوگوں نے اْن لوگوں کو پکڑا جو قرض لے کر بھول گئے تھے اْن سے قرض وصول کیا جن کے بینک اکاؤنٹ سے قرض کی رقم وصول نہیں کی جاسکتی تھی اْن کے اثاثے نیلام کرکے قرض وصول کیا گیا۔
ایران نے بھی قومی قرضہ اسی طرح وصول کیا۔ المیہ یہی ہے کہ پاکستان کے مقتدر طبقے نے اپنے اطراف میں تحفظات کی ایسی دیوار کھڑی کی ہے جو دیوارِ چین سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط ہے آج تک فیصلہ ساز قوتوں کو یہ احساس بھی نہ ہوسکا کہ جمہوریت کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟ یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ سیاستدانوں نے پارٹیاں بنانے کا جمعہ بازار لگایا ہوا ہے اور یہی سیاسی پارٹیاں انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ایک ایسا پریشر گروپ بن جاتی ہیں جو ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرتی ہیں ان خود رو پارٹیوں پر پابندی نہیں لگائی جائے گی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جب تک سیاسی پارٹیوں کا جمعہ بازار لگا رہے گا جمہوریت بازار کی گالی بنی رہے گی اور معیشت ٹکے بھاؤ بکتی رہے گی۔
کہا جاتا ہے کہ مو لوی کا کام نمازِ جنازہ اور نکاح پڑھانا ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر افغان حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ مذہبی تعلیم کے بغیر سیاست ادھوری ہے سوچنے کی بات یہی ہے کہ ہم 75 سے 76 برسوں میں ادھوری سیاست کو مکمل نہ کرسکے آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ افغانستان میں سیاست کو شجر ِ ممنوع قرار دے دیا جائے گا کیونکہ وہاں پارٹی کے لفظ ہی کو قابل ِ تعزیر قرار دے دیا گیا ہے۔ اب کوئی بھی جماعت اپنی جماعت کے ساتھ پارٹی کا لفظ استعمال نہیں کرسکتی اور ہمارے ہاں سیکڑوں کے حساب سے پارٹیاں ہیں اور چند سیاست دان نئی پارٹی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ شاید وہ کسی سرپرست کے منتظر ہیں۔
اگر سیاست دانوں کی کارکردگی کا یہی عالم رہا تو ہماری عدلیہ درجہ بندی میں 140 ویں نمبر سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ وطن ِ عزیز میں ایسا کوئی میکنزم ہی نہیں جو سیاسی بحرانوں کا سد ِباب کر سکے۔ دانشور، دانشوری بھگار رہے ہیں اور سیاستدان نئی سیاسی پارٹی کا تڑکہ لگانے کی جدوجہد کر رہے ہیں جو اْنہیں قائد تو بنا سکتی ہے مگر ملک کی سیاسی صورتحال کو مزید خراب کر دے گی۔
جس ملک میں سیکڑوں سیاسی پارٹیاں موجود ہوں وہاں نئی سیاسی پارٹی بنانے کا کوئی تْک نہیں، بلکہ تْک بندی ہے اور المیہ یہی ہے کہ کوئی ادارہ اس تْک بندی کے دائرے سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔
ہم نے مْدّت سے اْلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ داور تیرے درہم و دینار پہ خاک
مگر ہم درہم و دینار پر خاک ڈالنے کے بجائے ملک و قوم کو خاک میں ملانے پر تْلے ہوئے ہیں۔