اقبال ؍ فارسی کلام

262

دنیا کے نظام کی بنیاد خودی
عذر این اسراف و این سنگین دلی
خلق و تکمیل جمال معنوی
معانی: اس فضول خرچی اور سنگ دلی کا سبب اصل میں تخلیق کائنات اور جمال حقیقی کی تکمیل ہے۔
حسن شیرین عذر درد کوہکن
نافہ ئی عذر صد آہوئے ختن
مطلب: شیریں کا حسن وجمال فرہاد کے درد کا بہانہ بنا ہے تو ایک نافہ سیکڑوں ختنی ہرنوں کی ہلاکت کا سبب ہے۔
سوز پیہم قسمت پروانہ ہا
شمع عذر محنت پروانہ ہا
مطلب: مسلسل جلتے رہنا پروانہ کا مقدر ٹھیرا اور شمع پروانوں کے دکھ درد کا سبب بنی۔
خامہ ی او نقش صد امروز بست
تا بیارد صبح فردائے بدست
مطلب: اس کے قلم نے سیکڑوں امروزوں کی تصویریں بنائیں تا کہ آنے والے کل کی صبح کو حاصل کر لے۔
شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت
تا چراغ یک محمد برفروخت
مطلب: اس ( اناے مطلق یا خودی مطلق) نے سیکڑوں ابراہیم آگ میں جھونک دیے ہیں تب کہیں ایک محمد ؐ کا چراغ روشن کیا۔
می شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
مطلب: وہ عمل کے مقاصد کی خاطر کبھی عامل (عمل کرنے والی) بن جاتی ہے اور کبھی معمول (جس پر عمل کیا گیا) اور کبھی وجوہات اور کبھی علتیں بن جاتی ہیں (مختلف روپ دھارنے پڑتے ہیں )۔
خیزد انگیزد پرد تابد رمد
سوزد افروزد کشد میرد دمد
مطلب: وہ اٹھتی ہے، اچھلتی ہے، اُڑتی ہے، چمکتی ہے چھلانگیں لگاتے ہوئے دوڑتی ہے، چلتی ہے، روشن کرتی ہے، مار ڈالتی ہے، مر جاتی ہے اور پھوٹتی ہے۔ (یہ سب مختلف روپ دھارتی ہے)
وسعت ایام جولانگاہ او
آسمان موجے ز گرد راہ او
مطلب: ساری کائنات کا پھیلائو اس کی دوڑ کا میدان ہے، آسمان اس کے راستے کی گرد کی ایک لہر ہے۔
گل بجیب آفاق از گلکاریش
شب ز خوابش، روز از بیداریش
مطلب: کائنات نے اس کی گل کاری کے سبب دامن میں پھول سمیٹ رکھے ہیں۔ رات اس کی نیند کا اور دن اس کی بیداری کا نام ہے۔