قانون بڑا یا سیاست

321

یہ فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے، قانون اور سیاست میں کون بڑا ہے؟ مہذب جمہوری معاشرہ ہو تو ہمیں قانون ہی بڑا تسلیم کرنا پڑے گا مگر جہاں ہر فیصلے کے پیچھے سیاست ہو تو پھر آپ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون بڑا ہوگا؟ ملک میں اب تک کوئی تیرہ عام انتخابات ہوچکے ہیں شاید ہی کوئی انتخاب تنازعات سے پاک رہا ہو، اور اب یہ بات سینیٹ انتخابات تک پہنچ گئی ہے الیکشن کمیشن کا آخری لمحات میں خیبر پختون خوا کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کا غیر معمولی فیصلہ قابل ذکر ہے، اس کے باوجود کہ دیگر تین صوبوں اور وفاق میں انتخابات ہوئے۔ خیبر پختون خوا وہ واحد صوبہ ہے جہاں مسائل ہیں‘ الیکشن کمیشن نے الیکشن سے انکار دیگر اسمبلیوں میں چناؤ کے دن کیا، اور وجہ یہ رہی کہ اسپیکر نے خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص سیٹوں پر منتخب دیگر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 25 ارکان کاحلف لینے سے انکار کردیا۔ اگر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اسمبلی کی ایک مستند جماعت کے طور پر تسلیم کیا ہوتا، جس سے مخصوص نشستوں کو عام انتخابات میں جیتی جانے والی عام نشستوں کے برابر مختص کرنا ممکن ہوجاتا، تو یہ نشستیں پی ٹی آئی کے نام ہوتیں۔ پی ٹی آئی اس امر پر تو کسی حد تک راضی ہے کہ یہ سیٹیں انہیں نہیں مل سکتیں، لیکن اس بات کو مکمل طور پر ناقابل قبول پاتی ہے کہ وہ سیٹیں، جن پر اس کا حق تھا، مخالف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی جائیں۔

پی ٹی آئی کے لیے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ، چاہے اسے کتنا ہی غیرمنصفانہ قرار دیا جائے، پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی مشترکہ توثیق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، اور اسپیکر کو ہدایت کی گئی کہ مخصوص نشستوں پر ’منتخب‘ ارکان کا حلف لیا جائے۔ چونکہ ’منتخب‘ ارکان کا حلف اسمبلی کے سیشن میں ہی لیا جاسکتا ہے، اور اسپیکر کے پاس اسے طلب کرنے کا کوئی قانونی مکینزم موجود نہیں لہٰذا اسمبلی کا یہ سیشن منعقد نہ ہوا اور مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کا حلف لیا نہ جاسکا۔ صرف صوبائی اسمبلی یہ اختیار رکھتی ہے کہ گورنر کو سیشن طلب کرنے کے لیے بائنڈنگ ہدایت جاری کرے۔ گورنر نے یہ اجلاس اپنے طور پر طلب کرنے کی کوشش کی لیکن صوبائی حکومت اور اسمبلی سیکرٹیریٹ، دونوں نے یہ کوشش آئینی طور پر ناکام بنادی۔ دراصل ہائی کورٹ کو مذکورہ ہدایت اسپیکر نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو جاری کرنا چاہیے تھی۔ یہ معاملہ بالآ خر عدالت عظمیٰ ہی کو حل کرنا ہے، کب؟ یہ بتانا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ کیا سینیٹ کے لیے خیبر پختون خوا کے 11 نمائندگان کے بغیر آپریٹ کرنا اور چیئرمین، نائب چیئرمین کا انتخاب کرنا ممکن ہوگا؟ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سینیٹ آئین کے آرٹیکل 60 کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے؟ آئین و قانون میں ایسا کچھ موجود نہیں جس کے مطابق ایسا نہ ہونا ثابت ہوتا ہو۔ خیال ہے کہ سینیٹ موجودہ حالت میں ایک عبوری صدارتی آفیسر کے تحت تو چل سکتا ہے لیکن چیئرمین و نائب چیئرمین کا باقاعدہ تقرر نہیں کرسکتا۔ اس امر پر دوبارہ غور ضروری ہے کہ آئین، الیکشن ایکٹ 2017 یا سینیٹ رولز آف پروسیجر میں ایسا کوئی نکتہ نہیں جو ایوان بالا کے ایسا کرنے کی راہ میں مزاحم ہو۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہوگا کہ قانونی طور پر سینیٹ کی تشکیل کے باجود صوبے کے نصف نمائندگان اس اہم فورم سے غیر حاضر رہیں جس کو خاص طور پر صوبے کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ اور (اگر ضرورت ہو تو) عدالت عظمیٰ ان اہم نکات پر جلد حتمی فیصلہ دے سکیں، ایسا فیصلہ جو مستقبل کے لیے بھی اس نوعیت کے معاملات کی تشریح میں مددگار ثابت ہو۔