قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

235

ہم نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اْن کے لیے سمندر میں سے سْوکھی سڑک بنا لے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے۔ پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا اور پھر سمندر اْن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ (سورۃ طہ:77 تا 81)

عبدان، عبدان کے والد، شعبہ، ابو اسحاق، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے، اور میں نے دیکھا کہ آپ کے پیٹ کی سفیدی کو مٹی نے ڈھک لیا تھا آپ فرما رہے تھے کہ: لَولَا اَنتَ مَا اھتَدَتنَا نَحنْ وَلَا تَصَدَّقنَا وَلَا صَلَّینَا فَاَنزِلَن سَکِنَۃً عَلَینَا اِنَّ الاْلَی وَرْبَّمَا قَالَ المَلَا قَد بَغَوا عَلَینَا اِذَا اَرَادْوا فِتنَۃً اَبَینَا اَبَینَا یَرفَعْ بِھَا صَوتَہْ۔ ترجمہ: ’’اگر تو نہ ہوتا، تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ ہم نماز پڑھتے، اس لیے ہم پر سکینہ نازل فرما، بے شک لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے، جب انہوں نے فتنہ کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کیا، ہم نے انکار کر دیا‘‘۔ اس کو بلند آواز سے فرماتے۔ (بخاری)