قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

200

فرعون نے کہا ’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سْولی دیتا ہوں پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے‘‘ (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ)۔ جادوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اْس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں، تْو جو کچھ کرنا چاہے کر لے تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دْنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔(سورۃ طہ:71تا72)

سیدنا ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول کریمؐ نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوۃ فطر (صدق فطر) کے طور پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے نیز آپؐ نے صدقہ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے دے دیا جائے۔ (بخار ومسلم)تشریح: امام شافعی اور امام احمدؒ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے، امام مالکؒ کے ہاں سنت مؤ کدہ ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں واجب ہے حدیث میں مذکور لفظ ’’فرض‘‘ امام شافع اور امام احمد کے نزدیک اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے، امام مالک فرض کے معنی بیان کرتے ہیں ’’مقرر کیا‘‘۔ حنفی کے ہاں صدقہ فطر چونکہ دلیل قطعی کے ذریعے ثابت نہیں ہے اس لیے صدقہ فطر واجب ہے فرض نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ)