وزیراعظم اپوزیشن کو اصلاحات کی دعوت دیں

348

یہ اس ملک وقوم کی بد بختی رہی ہے کہ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں عام انتخابات میں بھر پور حصہ تو لیتی ہیں کروڑوں روپے کی انتخابی مہم چلائی جاتی ہیں یعنی خزانوں کہ منہ کھول دیے جاتے ہیں کہ ہر ممکن اقتدار کی ان کی ملکیت بن جائے اور یہ اقتدار میں آکر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور سیاسی انتقام کی سیاست کو ترجیح دینے کی روایت کو اپنا لیتے ہیں کوئی اقتدار بچانے اور کوئی اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے مگر افسوس کہ اس ملک کے بوسیدہ نظام کو درست طور پر چلانے کی جدوجہد کسی جانب سے نہیں کی جاتی۔ آج ملک معاشی سیاسی اور عدالتی بحران کا شکار ہے مگر ملک کی تمام تر جماعتیں چاہے وہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سب نے ملک کو سنگین بحران میں ڈالنے کی قسم اُٹھائی ہوئی ہے۔ اس بات میں کوئی دو آرا نہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں تمام تر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں ہر ایک کو لگتا ہے کہ اس کے قیمتی ووٹ کی تضحیک کی گئی ہے اس کے ووٹ کو چوری کیا گیا ہے، بد قسمتی سے یہ روایت ماضی سے چلی آرہی ہے دھاندلی مداخلت کا شور یہ قوم برسوں سے سنتی آرہی ہے جس نے ملک و قوم کہ مسائل کو دلدل میں دھکیل دیا ہے مگر افسوس اس بوسیدہ نظام کو درست کرنے کی کوشش کسی جانب سے دکھائی نہیں دے رہی۔
آج ملک میں ایک نئی حکومت اقتدار پر براجمان ہوچکی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت دھاندلی کا شور مچا رہی ہے یقینا تحریک انصاف کو اس وقت سخت ترین مسائل کا سامنا ہے نو مئی کے واقع نے خان صاحب اور ان کی جماعت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے خان صاحب کی تلخ سیاست نے ان کو اسی جگہ کھڑا کر دیا ہے جہاں سے خان صاحب کو اپنی سیاست میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہوگی، یقینا یہ اس ملک کی سیاست کا المیہ رہا ہے کہ انصاف کے دعوے کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی پر سیاست کرتے ہوئے خاموش تماشائی بنی رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی جلاوطنی، میاں صاحب کی بیماری پر سیاست ہوئی پھر آج جس طرح تحریک انصاف کو دیوار سے لگایا گیا ان تمام تر تلخ مراحل پر ہر دور میں تمام تر سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائی ہیں۔
جس کی وجہ سے ملک کو کبھی سیاسی معاشی استحکام نصیب نہیں ہو سکا آج ملک کے تمام تر ادارے اپنی اپنی مرضی سے چلائے جارہے ہیں ملک میں آئین و قانون کی دھجیاں اُڑادی گئی ہیں مگر ہر سیاسی جماعت سیاست میں اپنا کردار محفوط رکھنے کے لیے زیادتیوں پر خاموش رہی۔ کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ وقت کبھی بھی اس پر مہربان ہوسکتا ہے اور کبھی بھی وقت کا پرندہ قید کی سلاخوں کی زینت بن سکتا ہے۔ خامیاں اس ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں موروثی سیاست ذاتی مفادات کی سیاست ہر جماعت کی اولین ترجیح میں شامل ہے کرپشن، میس مینجمنٹ، غیر سنجیدہ سیاست ہمارے نصیب میں شامل کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں آج ملک سنگین بحرانوں کی زد میں ہے۔
مان لیجیے ہر بار کی طرح اس بار بھی ملک کو غیر جانبدار صاف شفاف مداخلت سے پاک انتخابات نصیب نہیں ہوسکے کل کوئی لاڈلہ تھا آج کوئی اور لاڈلہ ہوگیا ہے، کل کوئی اور کرپٹ تھا، کوئی اور غدار تھا، کوئی اور نااہل تھا آج وقت کی کروٹ نے سب کچھ بدل دیا ہے جس کی تمام تر ذمے داری ہماری تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے دراصل ہمیں اقتدار کے لیے کٹ پتلی بن کر سیاست کرنے کی عادت ہوگئی ہے ہم کبھی عوامی مینڈیٹ سے اقتدار تک پہنچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اس لیے ہمیں ہر دور میں اپنی باری کے لیے بے ساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور جب ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان ہی بے ساکھیوں اور اداروں پر سہولت کاری کے الزامات عائد کر دیتے ہیں ہم نے کبھی قانون آئین میں رہتے ہوئے اصلاحات کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جس کی وہ سے ہر دور میں کوئی نا کوئی سیاسی جماعت انتقام کا شکار بنائی جاتی رہی ہے۔ کیا ہم آج بھی اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھ سکے ہیں؟ کیا ہم آج بھی سہولت کاری کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ کیا ہم بہتر اصلاحات کے ذریعے سیاست کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ کیا ضرورت اس امر کی نہیں کہ ملک کو ایک بہتر مضبوط موثر مداخلت سے پاک نظام دیا جائے؟
یقینا یہ وہ سوال ہیں جس کے جواب کے لیے قوم منتظر ہے کہ اُن کے سیاسی نمائندے ایک بار مل کر ملک کے تمام تر اداروں میں بہتر موثر غیر جانبدار صاف شفاف اصلاحات کا عمل شروع کریں ہر ایک کو قانون اور آئین کے مطابق اپنے فرائض کی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے پابند کیا جائے کسی کو کسی کے بھی فرائض میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ عدالتیں سیاسی رشتے دارویوں کو نبھانے کے بجائے آئین و قانون میں رہتے ہوئے فیصلے کریں۔ ملک کے بااثر ادارے اپنی عزت وقار کو قائم رکھتے ہوئے سیاست سے دور رہیں کیوںکہ سیاستدان کبھی کسی کا نہیں ہوتا جو آج بر سر اقتدار ہیں وہ کل ان ہی اداروں کی تضحیک کا سبب تھے اور جو کل اقتدار میں تھے وہ آج ان ہی اداروں کو سب چیزوں کا ذمے دار ٹھیرا رہے ہیں۔ لہٰذا ہم سب ایک دوسرے کو آزما چکے ہیں اب پسند نا پسند کے خول سے نکل کر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں ملک کے اداروں کو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا سوچنا ہوگا اگر اب بھی ہم سیاسی انتقام کی ضد میں ایک دوسرے کی تضحیک کا سبب بنے رہے تو ایک دن پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا باب بند کر دیا جائے گا جس کا نقصان یقینا سیاستدانوں کو ہی ہوگا لہٰذا وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف قدم بڑھائیں اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کریں جمہوریت کی خاطر اپوزیشن کو مفاہمت اور اداروں میں بہتر اصلاحات کی دعوت دیں تمام قومی سرکاری اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں تاکہ قوم آپ کو سنہری الفاظ میں یاد رکھے۔ ساتھ ہی خان صاحب اس ملک وقوم کی بہتری میں موجود حکومت کو اصلاحات پر مجبور کریں تاکہ ملک وقوم کو اگلی بار غیر جانبدار صاف شفاف مداخلت سے پاک انتخابات کے ذریعے عوامی منتخب حکومت نصیب ہوسکے۔