اسے کیا کہیے!

316

مطالعہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ محکمہ مال کا قیام مال بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ مال کے ملازمین کو مال زادہ بھی کہا جاتا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ناقابل ِ تردید ہے کیونکہ چشم بیتی اور آب بیتی مطالعہ اور مشاہدہ کی تصدیق کرتی ہے۔

ڈی سی بہاولپور کو پٹا ملکیت کے حصول کے لیے درخواست دی گئی مگر موصوف دو سال تک مختلف اعتراضات کرتے رہے بالآخر ہم نے محکمہ مال کے سینئر کلرکوں سے مشاورت کے بعد ڈی سی صاحب سے گزارش کی کہ ہمیں پٹا ملکیت کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا مقصد فردِ ملکیت سے بھی پورا ہوجائے گا اس لیے مہربانی فرما کر ہماری فائل تحصیلدار صاحب کو بھیج دی جائے۔ اْنہوں نے مہربانی فرمائی اور فائل تحصیلدار صاحب کو ریفر کر دی۔ تین سے چار دن بعد تحصیل گئے تو معلوم ہواکہ فائل موصول نہیں ہوئی ہے ہم ڈی سی آفس گئے اور ریفر نمبر مانگا تو کہا گیا آج بھیج دی جائے گی اور پھر ایک ہفتہ تک متعلقہ کلرک آج بھیج دوں گا کی تکرار کرتا رہا۔ اْس کی کل کل نے ہماری سوجھ بوجھ کوکِل کردیا اور ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہم نے پیمانے کو ہاتھ لگائے بغیر جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا اور کلرک سے کہا کہ جس سیٹ پر آپ براجمان ہیں اس پر اگر کوئی سکھ ہوتا تو ہماری عمر اور ماہِ رمضان کا احترام کرتا۔ ہمیں چکر پے چکر نہ لگواتا ہماری بپتا سْن کر کلرک بادشاہ نے کہا یہ ہے تمہاری فائل میں تحصیل دینے جا رہا ہوں ہم نے کہا بہت مہربانی جناب اب ہمیں اس کا نمبر بھی دے دیں۔ ارشادِ گرامی ہوا کہ کل آکر لے لینا۔ ہم نے کہا کہ کل کیوں؟ آپ نمبر لگا چکے ہیں وہ نمبر دے دیں۔ میں کل تحصیل جا کر معلوم کر لوں گا اس معاملے میں خاصی بحث اور تکرار ہوئی وہاں موجود افراد نے کہا کہ جب نمبر لگا چکے ہو تو دینے میں تکرار کیوں؟ بہرحال موصوف نے فائل نمبر عنایت فرما دیا۔

دوسرے دن ہم تحصیل گئے اور کلرک سے ملے اْس نے ہماری فائل اْٹھائی اور تحصیلدار صاحب کے آفس میں ہمیں لے گیا وہ دوسری دستاویز پڑھ رہے تھے۔ استفسار کیا کہ یہ کیا ہے؟ کلرک نے بتایا کہ پٹا ملکیت کے لیے درخواست دی تھی ڈی سی صاحب نے وارثوں کے حصے مقرر کرنے کے لیے بھیجی ہے۔ اْنہوں نے فور ی طور پر گرداور کو لکھا کہ وارثوں کے حصے بنا کر رپورٹ پیش کرو۔ اْن کی کارکردگی دیکھ کر احساس ہوا کہ پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں اور لوگ بھی ایک سے نہیں ہوتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران کا مشاہدہ غلط نہیں ہے مگر سارے افسران بھی ایک جیسے نہیں ہوتے کوئی اچھا بھی ہوتا ہے اور اپنی ذمے داری کا احساس بھی کرتا ہے ہمیں اْمید ہے کہ ایک ہفتے میں گرداور کی رپورٹ آ جائے گی اور وارثوں کے حصے میں مکان کا جتنا حصہ آئے گا اْس کی تقسیم بھی ہوجائے گی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک معمولی سی بات کے لیے ڈی سی صاحب دو سال تک پیشی پیشی کا مکروہ کھیل کیوں کھیلتے رہے؟ مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی اْن سے یہ استفسار نہیں کرسکتا جب تک بااختیار طبقہ اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتا رہے گا عوام عدالتوں اور دفتروں کے دھکے کھاتے رہیں گے۔

عدالت کی جاری کردہ ڈگری پر عمل درآمد کرنا محکمہ مال کی ذمے داری ہے مگر ڈپٹی کمشنر اور ڈی سی ڈگری پر عمل درآمد کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اْن کے خیال میں عدالتی ڈگری اْن کے اختیارات میں کھلی مداخلت ہے۔ جس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا اور بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ وفاقی ہے اور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یوں سائلین در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں اور عدالتی ڈگری کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جاتی ہے حالانکہ یہ معاملہ توہین ِ عدالت کا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی اس معاملے پر ایکشن لینے پر آمادہ نہیں عدالت سے رجوع کیا جائے تو دھکے کھاتے کھاتے آدمی اد موا ہوجاتا ہے۔