سانجھے کی ہنڈیا

308

اتحاد انفرادی ہو یا اجتماعی مکالمے کی کامیابی کا مظہر ہوتا ہے جس کا اظہار باعث ِ خیر سمجھا جاتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مکالمے کی منڈیر سے کبوتر پرواز کر جاتے ہیں، امن کی فاختہ کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور سانجھے کی ہنڈیا بھی چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے۔ مطالعہ اور مشاہدہ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔

حالیہ انتخابات کے بعد وزیر ِ اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو کسی بھی پارٹی کے پاس ارکانِ اسمبلی کی اتنی تعداد نہیں تھی کہ وہ اپنا وزیر ِ اعظم منتخب کر سکے اس صورتحال میں دیگر پارٹیوں سے اتحاد ضروری ہوگیا۔ مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر ارکانِ نے قومی اسمبلی سے اتحاد کر لیا۔ تحریک ِ انصاف کا دعویٰ تھا کہ نمبرگیم میں وہ بہت آگے ہے اور وہی حکومت سازی کرے گی مگر سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرنے کے بعد بھی اپنا اْمیدوار کامیاب نہ کرا سکی اور اس کی سانجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پہنچنے سے پہلے ہی پھوٹ گئی جس کے نتیجے میں اْن کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہنڈیا میں کبھی نمک زیادہ ہوجاتا ہے تو کبھی مرچ زیادہ ہوجاتی ہے۔

انتخابات کے معاملے میں ہماری روایت پرستی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ ہارنے والے سیاستدان شکست تسلیم نہیں کرتے اور پھر ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی حکومت کو ایسے دوراہے پر کھڑا کر دیتی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست بن جاتی ہے۔ دیگر سیاست دانوں کی طرح عمران خان بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت پانچ سے چھے ماہ کی مہمان ہے ہر سیاسی پارٹی اس توقع کا اظہار کر رہی ہے کہ حکومت وہ بنائے گی۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ ہم امریکا کے غلام نہیں کہ اْس کی ہر بات پر سر تسلیم ِ خم کریں مگر اندرونِ خانہ تلوے چاٹنے کے لیے بے تاب ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے ملتمس ہیں کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے کیونکہ یہ حکومت تو چند ماہ کی مہمان ہے قرض کون ادا کرے گا؟ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ قرض حکومت کو نہیں بلکہ مْلک کو دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اب اس غلطی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور اْدھر سنی اتحاد کے رہنماؤں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے گویا دونوں جانب پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کا اصرار ہے کہ ہم ہر کام سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اس لیے کسی غلطی کا سوال ہی نہیں ہوتا ممکن ہے

کہ ایسا ہی ہو مگر زمینی حقائق اس کی نفی کررہے ہیں یہ ’’کچھ بڑا ہی تیز و طرار ہوتا ہے‘‘ کسی بھی وقت یہ کچھ ’’کچھ کچھ‘‘ بن جاتا ہے جہاں کچھ کچھ ہوتا ہے وہاں بہت کچھ ہوتا ہے۔ سو اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ اس اعتراف کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ تحریک ِ انصاف، ایم کیو ایم بن سکتی ہے اور عمران خان الطاف حسین بن جائیں گے۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گونجنے لگا ہے کہ تحریک ِ انصاف نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کیا سوچ کر کیا تھا یہ ہی سوچ سنی اتحاد کونسل کے بارے میں بھی ہے۔ فی الحال یہ سوچ، سوچ کے دائرے تک ہی موجود ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس سوچ کے پیچھے کس کا دماغ ہے اور اْس کا مقصد کیا ہے؟ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو سوچ سمجھ کر منہ کھولنا چاہیے اگر اْنہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔