سرکاری اداروںکو سرکار ہی نے تباہ کیا

462

پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور بدعنوانیوں کا رونا رونے کے لیے کسی الزام کی ضرورت نہیں۔ ملک کا ایک ایک ادارہ چیخ چیخ کر ان کی نااہلی اور بے ایمانی کی داستان سنا رہا ہے۔ جتنے سرکاری ادارے مالدار اور پیسہ کمانے کی مشین تھے ان سب کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں سرفہرست پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے ہیں۔ ان حکمرانوں نے ریلوے، ٹیلی فون، پورٹ اینڈ شپنگ پی این ایس سی، محکمہ ڈاک غرض کسی ادارے کو نہیں بخشا ہے۔ پاکستان اسٹیل کی تباہی کی کہانی بھی وہی ہے ۱۹۷۰ کے عشرے میں جس ادارے کی داغ بیل ڈالی گئی اور جو پاکستان میں اسٹیل ایلومینیم کی صنعت ملکی تعمیراتی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی تھی اسے سرکاری مداخلتوں کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ پاکستان اسٹیل اس کے کارکنوں یا انجینئرز نے تباہ نہیں کیا بلکہ سرکاری ادارے کو سرکار نے خود تباہ کیا۔ اپنی مرضی کی یونین مسلط کی جاتی اور اس سے اپنے کام نکلوائے جاتے۔ اسے غیر ضروری ناجائز مراعات دی جاتیں۔ میڈیکل کے نام پرتعیش اشیا کی منظوری دی جاتی، پیشہ ورانہ بنیادوں پر تقرر کے بجائے اقربا پروری اور پارٹی کی وفاداری کو بنیاد بنایا جانے لگا اور ایسے کاموں کا جو انجام ہوتا ہے وہی ہوا۔ اب بھی ہزاروں افراد پاکستان اسٹیل کے ملازم ہیں وہاں کوئی کام نہیں ہورہا لیکن ان کی تنخواہیں اور واجبات حکومت کے سر پر بڑھتے جارہے ہیں۔ یہی حال پی آئی اے کا کیا گیا۔ اس ادارے میں بھی حکومتوں نے مداخلت کی۔ شاہی انداز میں غیر ملکی دوروں کے لیے ایک ایک ہفتے تک طیارے بیرون ملک اپنے ساتھ رکھتے، پورا خاندان سرکاری وفد میں شامل کیا جاتا۔ آمدو رفت، رہائش اور اقامت کا خرچ ادارے کے ذمے ہوتا اپنی سہولت یا عیاشی کے لیے طیارے میں تبدیلیاں کرکے پرتعیش بنایا جاتا رہا۔ اور اس ادارے میں بھی پیشہ ورانہ مہارت کو چھوڑ کر حکومت اور پارٹی وابستگی اقربا پروری کو بنیاد بنایا گیا۔ جو پارٹی حکومت میں ہوتی اس کا خیال یہ ہوتا تھا کہ پی آئی اے اس کے خاندان کی ملکیت ہے۔ باریوں کے کھیل سے ایک اور خرابی ہوئی کہ جب پیپلزپارٹی کو باری ملتی تو وہ مسلم لیگ کے نشان مٹانے اور اس کے لوگوں کو ہٹانے میں مصروف ہوجاتی، اپنے لوگوں کو کھپانے لگتی اور جب مسلم لیگ واپس آتی تو وہ ہیں کام کرتی۔ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے دونوں کے بڑے بڑے سودوں میں کمیشن کی کہانی تو بہت اوپر تک جاتی ہے۔ اب ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ پی آئی اے کے اربوں روپے کے فاضل پرزہ جات جو اسکریپ قرار دے دیے گئے ہیں انہیں نیلام کردیا جائے گا۔ ان پرزہ جات کی خریداری میں بھی کمیشن کھایا گیا انہیں منگوا کر اسٹور میں پھینک دیا گیا اور جب خاصا وقت گزر گیا اور اب پی آئی اے سے جان چھڑائی جارہی ہے تو اسکریپ کو بیچ کر لنگوٹ ہی بھلی کے مصداق اسے تو بیچ کھایا جائے۔ اب اس کی فروخت میں بھی وہی کہانی دہرائی جائے گی جو خریداری میں ہوئی تھی۔ قوم کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اثاثوں کو کیسے تباہ کیا گیا۔ سیاسی پارٹیاں حکومت سے نکلتے ہی دوسری پارٹی پر الزام دھرتی ہیں اور حکومت میں آنے والے کہتے ہیں کہ ساری تباہی سابق حکمرانوں نے مچائی ہے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کی عیاری سے زیادہ عوام کی بے وقوفی کو دخل ہے۔ عوام کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حکمران اداروں کو تباہ کررہے ہیں لیکن وہ ہر مرتبہ ان ہی کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان کے پاس متبادل اور بہتر متبادل نہیں اب تو بار بار ثابت ہوچکا کہ متبادل تو موجود ہے لیکن قوم اس طرف جانا نہیں چاہتی۔

پہلے جب باریوں کا چکر چلتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ پچھلی حکومت چور تھی لیکن اب تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں باریاں لینے کے بعد پی ڈی ایم میں ایک ہوگئے۔ ۱۶ ماہ حکمرانی کرنے کے بعد اب پی ڈی ایم ٹو برسراقتدار ہے۔ اب ان کے پاس یہ جواز بھی نہیں ہے کہ پچھلی حکومت چور تھی۔ اب تو یہ چالیس سالہ چوریوں کے تسلسل کا حصہ ہیں۔ ان کے پاس کیا جواب ہے کہ پچھلے حکمران چور تھے۔ اگر یہ سارا ملبہ پی ٹی آئی اور عمران خان پر ڈالنا چاہیں تو ڈال سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی ان ہی کے لوٹے تھے لہٰذا یہ اپنی ذمے داری سے پہلوتہی نہیں کرسکتے۔ آج کل تو پی آئی اے کا بہت ذکر ہورہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستانی حکمران تمام تر خواہشوں کے باوجود پاکستان اسٹیل کی نجکاری نہیں کرسکے۔ پی آئی اے کا نام بار بار لیا جاتا ہے لیکن ایسا کر نہیں پاتے۔ پی ٹی سی ایل کا جو حشر کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ نجکاری سے قبل جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی پورے نہیں ہوئے ملازمین کی چھانٹی بھی ہوگئی، فون کالز مہنگی اور کارکردگی کا بیڑا غرق ہوگیا۔ اور کے الیکٹرک کی نجکاری کا نتیجہ تو اہل کراچی روز بھگتتے ہیں۔ بجلی کے نرخ روز بڑھتے ہیں حکومت نرخ کنٹرول کرنے میں ناکام ہے بلکہ کے الیکٹرک نیپرا کو کنٹرول کرتی ہے اور جب چاہتی ہے نرخ بھی بڑھاتی ہے اور نت نئے سرچارج بھی لگائے جاتے ہیں۔ عدالت بھی پہلے بل ادا کرنے کا حکم دیتی ہے اب پی آئی اے کی نجکاری کے بعد کیا ہوسکتا ہے۔ ایک تو ٹکٹ مہنگے ہو ہی جائیں گے لیکن حکمراں ٹولے کو ایک ایک ہفتہ پی آئی اے کا طیارہ اپنے ساتھ دوروں میں رکھنے کا موقع نہیں ملے گا، مفت کی سیر نہیں ہوگی، پورے خاندان کے دورے مفت میں نہیں ہوں گے، پی آئی اے کے اندر بھی کھلبلی ہے کہ اگر نجکاری ہوگئی تو ہمارے کھاتے بند ہوجائیں گے، اب یہی ہوسکتا ہے کہ آج والے اتنا بڑا کمیشن کھا جائیں کہ آگے والوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ عوام تو حکومت کے ہر فیصلے کو بھگت رہے ہیں۔ حکومت ادارے چلائے تو عوام تنگ ہوتے ہیں اور نجکاری کرے تو عوام کی زندگی ہی تنگ ہوجاتی ہے۔ نجکاری کرنی ہے تو سرکار کی کردی جائے سارے خساروں کا سبب سرکار ہی ہے۔