عدلیہ کی آزادی کا سوال

358

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے سربراہ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے نام تحریر کردہ خط نے سیاسی صورت حال کو دھماکا خیز بنا دیا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کے6 ججوں کی جانب سے لکھا گیا خط پاکستان کی سیاسی اورعدالتی تایخ کا منفرد واقعہ ہے ۔ مذکورہ خط ریاست کے ایک ستون عدلیہ کی جانب سے ریاست کے دوسرے ستون انتظامیہ کے خلاف فرد جرم بھی کہی جا سکتی ہے ۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے6ججوں کی جانب سے تحریر کردہ خط نے عدالتی امور میں حکومتی اور خفیہ ایجنسیوں کے مداخلت کے مسئلے کو مرکزی موضوع بنا دیا ہے ۔ اس خط کے جاری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ کا اجلاس منعقد ہوالیکن ابھی تک عدالت عظمیٰ کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں آیا ہے ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ہے جس میں عدلیہ کے سربراہ اور انتظامیہ کے سربراہ دونوں اداروں کے روابط کا جائزہ لیا گیا ۔ آزاد عدلیہ کا تصور یہ ہے کہ وہ حکومت کے مناصب پر فائز افراد کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے یانہیںاس خط میں تو مرکزی سوال یہ اٹھایا گیاہے کہ انتظامیہ کے اداروں کی جانب سے جب دبائو ڈالا جائے تو وہ کیا کرے ، ججوں کے لیے مقررہ قواعد و ضوابط( کوڈ آف کنڈکٹ) میں اس بارے میں رہنمائی نہیں ملتی ۔ خط میں خاص طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کے عاید کردہ الزامات کی تحقیق ہونی چاہیے تھی ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے ایک افسر کا نام لے کر الزام عاید کیا تھا کہ آئی ایس آئی اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا ، جسٹس شوکت عزیز کی بر طرفی کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ نے غلط قرار دیا اور ان کی مراعات اورپنشن بحال کر دی ، عدالت عظمیٰ اور اس کے سربراہ ماضی میں عدلیہ کی طرف سے کیے جانے والے کئی فیصلوںکو غلط اور اس وقت کی حکومت کے دبائو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سزائے موت کا فیصلہ بھی شامل ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے6ججوں کے خط میںمتعین طور پر چند واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق ججوں کے دوستوں اور اہل خانہ کے ذریعے دبائو ڈالا جاتا ہے ۔ اس خط میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ شہریوں کے لیے انکشاف نہیں ہے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ سرکاری دستاویزات کا حصہ بن گئے ہیں ، ان واقعات کی روشنی میں پاکستان میں نظام حکومت سے وابستہ عناصر کی سفاکی ، ذہنی پستی اور گھٹیا پن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کام وہ ادارے کر رہے ہیں جن کی اصل ذمے داری سرحدوںکی حفاظت ، ملک دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہے، سیکورٹی کے نام پر یہ لوگ کیا کام کررہے ہیں ، ان کے ہاتھوں سے مشرقی پاکستان نکل گیا، بانی پاکستان کے شہریوں کو اپنے وطن کے مستقبل سے مایوس کر دیا ۔ اس خط کے بعد سیاسی کارکنوں اور وکلاء تنظیموں کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کے نعرے ایک بار پھر لگائے گئے ہیں لیکن اگر اس مسئلے کو سیاسی تفریق کی بنیاد پر دیکھا گیا تو اس کے بد ترین نتائج نکلیں گے ۔