عدلیہ پر ایجنسیوں کا دبائو

290

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6فاضل ججوں نے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے جس میں عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور ججوں پر دبائو ڈالنے کے بارے میں ججوں کا کنونشن بلانے کی تجویز پیش کی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق جہانگیری ، جسٹس بابر ستار ، جسٹس اعجاز اسحاق ، جسٹس ارباب طاہر اور جسٹس ثمن رفعت نے مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں ، فاضل ججوں سے عدلیہ میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت اور دبائو ڈال کر اثر انداز ہونے اور عدالتی امور میں مداخلت کے بارے میں ججوں کا کنونشن بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کونسل سے معلوم ہو ا کہ کیا دیگر اعلیٰ عدالت کے ججوں کو اس صورت حال کا سامنا ہے ؟ فاضل ججوں نے اپنے خط میں جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ان کے الزامات کی تحقیقات میں ہونی چاہے تھی جسٹس شوکت صدیقی نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے الزام عاید کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسر نے ایک سیاسی مقدمے کے بارے میں ان پر دبائو ڈالا تھا ۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کی بر طرفی کے فیصلے کو غط قرار دیا تھا ، فاضل ججوں نے کہا ہے کہ وہ جسٹس(ر) شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔ فاضل ججوں نے مختلف سیاسی مقدمات میں انٹیلی جنس ایجنسیوںکے اہلکاروںکی مداخلت کی مثالیں پیش کی ہیں اور پوچھا ہے کہ کیا سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونا ریاستی پالیسی کا حصہ ہے؟ جسٹس(ر) شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کے فیصلے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت ہوئی اس لیے اس کی وسیع تر حوالوں سے تحقیق کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ، ایک اور مثال… وائٹ کیس مثال دی گئی ہے ۔ اس مقدمے کے بارے میں لکھا ہے اور مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں بنچ میں شامل ججوں کا اختلاف سامنے آیا ۔ بنچ کی سربراہی کرنے والے جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا جس سے دیگر دو ججوں سے اختلاف کیا ۔ الزام عاید کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے پٹیشن کو نا قابل سماعت قرار دینے والے ججوں پر ان کے دوستوں اور رشتے داروں کے ذریعے دبائو ڈالا جس کے بعد ایک جج شدید ذہنی دبائو کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہو گئے، اس کے باوجود ان پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں کا دبائو بر قرار رہا ۔ مئی2023ء میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو اغواء کیا اور غیر قانونی حراست میں رکھا ۔ دوران حراست میں ان کو الیکٹرک شاک بھی لگائے گئے ۔ ایک جج سرکاری مکان میں منتقل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے ڈرائنگ روم اور بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے ، کیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی جس کا مطلب یہ ہے کہ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو کسی جگہ پہنچارہا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 فاضل ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام مشترکہ خط لکھ کر یہ بتادیا ہے کہ ریاست اور نظام حکمران کس پستی میں گر چکا ہے۔ اب یہ خط عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا ایک اور امتحان ہے کیا وہ اس خط کے مطابق کارروائی کریں گے؟ کیا عدلیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومت کے دبائو کا مقابلہ کرے گی؟ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے بعض فیصلوں سے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ عدلیہ خود احتسابی کے لیے تیار ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں ماضی کے متنازع فیصلوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اس وجہ سے سیاسی مبصرین یہ توقع رکھتے ہیں کہ وطن عزیز میں استبداد کی مزاحمت کے لیے آزاد عدلیہ موجود ہے اس توقع کے برعکس ڈکٹیٹر شپ کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے اس کی ایک شہادت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے مشترکہ خط کی صورت میں آگئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کس قسم کے دبائو کا شکار ہیں اس صورتحال میں اضافے کی وجہ ملک میں موجود سیاسی تقسیم بھی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی پولرائزیشن کی کوئی فکری، نظریاتی، اصولی بنیاد نہیں ہے۔ صورت حال اتنی ابتر ہوگئی ہے کہ عدلیہ جوکہ اپنے وطن کے شہریوں کے لیے تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے اور ہر ظالم جابر اور بدعنوان افراد، گروہ اور طبقے سے لوگوں کو بچاتی ہے۔ اسی عدلیہ کے ارکان اپنی ہی حکومت کے جبر و استداد اور دبائو کا شکار ہیں۔ ملک اس وقت انارکی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے پیچھے جبر کی حکمرانی ہے آمریت اور جابرانہ استبداد سے شہریوں کو بچانے کا طریقہ عدلیہ کے پاس ہے لیکن عدلیہ کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلاء کی قیادت میں عوامی تحریک کا مشاہدہ بھی کرچکے ہیں اس تحریک کی قیادت نے دعویٰ کیا تھا کہ اب کسی جابر کو آئینی جواز نہیں دیا جائے گا لیکن اس تحریک کے بعد ملکی سیاست میں عدلیہ خبروں کا مرکزی موضوع تھی لیکن سیاسی کارکنوں اور شہریوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔