حماس کی تاریخی کامیابی

380

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔ قرارداد دس رکن ممالک نے پیش کی۔ ۱۵ میں سے ۱۴ ارکان نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ امریکا نے جنگ سے متعلق اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے ویٹو نہیں کیا اور اجلاس سے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی۔ اس قرار داد کے مطابق شہریوں کے تحفظ کے لیے امداد کی ترسیل کو بڑھانے اور بہتر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ووٹنگ سے چند لمحے قبل اسرائیل کی پٹھو امریکی حکومت نے قرار داد میں مستقل جنگ بندی کے الفاظ کو طویل جنگ بندی سے تبدیل کرادیا۔ اور پھر اجلاس سے غیر حاضر ہوگیا۔ اسرائیل پر مہربانی کے باوجود اسرائیل قرار داد ویٹو نہ کرنے پر برہم ہے اور ایک سپر طاقت کی طرح امریکا پر برہمی کا اظہار کیا اور اپنا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اس صورت حال سے امریکا اور اسرائیل دونوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اور دونوں پر ان کے عوام کے دبائو کا اظہار ہورہا ہے۔ حماس نے بھی قرارداد منظوری کا خیرمقدم کیا ہے تاہم ترجمان نے کہا کہ قرارداد پر عمل کروانا عالمی برادری کی ذمے داری ہے۔ اب اسرائیل سے جنگ بندی کی قرارداد پر عمل کروانا عالمی برادری کی ذمے داری ہے۔ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کی قرارداد پر عمل پر مجبور کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عالمی برادری اسرائیل سے قرارداد پر عمل کروائے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض قرارداد کی منظوری ہے۔ فلسطین میں جو تنازع ہے اس کا حل عارضی، مستقل یا طویل جنگ بندی نہیں ہے، بلکہ اس تنازع کا بنیادی سبب اسرائیل کا فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ اور یہودی بستیوں کی آبادکاری ہے۔ اسرائیل کا اپنا وجود ناجائز ہے تو پھر اس سے مطالبات کے کیا معنی، اسے تو عالمی برادری تجارت، لین دین سفارتی تعلقات ہر طریقے سے مجبور کرے کہ فلسطینیوں کے خلاف درندگی بند کرے۔ سیکرٹری جنرل دعویٰ تو کررہے ہیں کہ ہمارا معیار دہرا نہیں ہے لیکن اب تک تو اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے دہرے معیار ہی کا مظاہرہ کیا ہے قرار داد کی منظوری میں کسی حکومت کی اپنی پالیسی سے زیادہ ان ممالک کے عوام کا دبائو ہے جنہوں نے مجبوراً قرار داد ویٹو نہیں کی۔ اور جس طرح اسرائیل نے برہمی کا اظہار کیا ہے اس کے نتیجے میں جوبائیڈن کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ امریکی سیاست مکمل طور پر صہیونیوں کے کنٹرول میں ہے۔ ادھر اسرائیلی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان دوحا مذاکرات میں حماس سے طے پا گیا ہے کہ اسرائیل کے ۴۰ یرغمالیوں کے بدلے ۷۰۰ فلسطینیوں کی رہائی پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اگر اس سودے کو درست تسلیم کیا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حماس نے اللہ کی مہربانی سے ایک کو دس نہیں بلکہ تقریباً ۲۰ کے مساوی کردیا ہے ۴۰ کے بدلے ۷۰۰ تو یہی بتارہا ہے جبکہ عمر قید کی سزا پانے والے سات فلسطینیوں کو ایک اسرائیلی فوجی خاتون کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ حماس کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے رہائی کے لیے دیے گئے ناموں پر اعتراض کا حق نہیں ہوگا۔ گزشتہ ۸۰ برس میں اسرائیل کے خلاف یہ فلسطینیوں کی اتنی عظیم فتح ہے کہ ایسی فتح تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔ اسرائیل ایک ایک کرکے اپنے ہمنوائوں اور پشت پناہوں سے محروم ہورہا ہے اور سب سے بڑھ کر یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ امریکا جنگ بندی اور امدادی سرگرمیوں پر دبائو ڈال رہا ہے۔ فرانس کا صدر براہ راست نیتن یاہو کو اسرائیلی قبضوں پر لتاڑ رہا ہے۔ لیکن مسلم حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ان کی غیرت اس قدر مردہ ہوگئی ہے کہ ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتا۔ ان کا یہ حال بھی صرف اس لیے ہے کہ مسلم ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں تو ریلیاں کررہے ہیں لیکن مردہ ضمیر حکمرانوں کے خلاف مظاہرے نہیں ہورہے۔ پاکستان جیسے ملک میں تو ہر حکومت ترقی، معیشت، روزگار کا نعرہ لگاتی ہے لیکن یہ اسی وقت ٹھیک ہوں گے جب قوم نعرہ لگائے کہ فلسطین کی آزادی قبلہ اول کی آزادی اولین چیز ہے۔ اپنی معیشت کے منصوبے لے کر یہاں سے جائو۔ ان حکمرانوں کو کرسی کی فکر ہوگی تو وہ بھی کچھ ہل جل کریں گے ورنہ مست بیٹھے رہیں گے۔ مغرب کے حکمرانوں نے بھی ضمیر کی آواز پر نہیں کرسی کی خاطر پالیسی تبدیل کی ہے۔