طورخم‘ ہر ادارہ بارڈر کراس کررہا ہے

309

پاک افغان طورخم سرحد پر فرنٹیئر کور نارتھ کا ایف آئی اے کے عملے پر لاٹھیوں سے حملہ اور چھ اہلکاروں کو زخمی کرنے کا واقعہ ملک میں تمام اداروں کے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے دوسروں کے اختیارات میں مداخلت کی روش کا شاخسانہ ہے۔ ایف سی نارتھ کے اہلکاروں نے ایف آئی اے نادرا چیک پوائنٹ میں داخل ہو کر حملہ کیا جس سے 6 افراد زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی وجہ یہ بنی کہ ایف سی اہلکار امیگریشن کے معاملات میں مداخلت کررہے تھے اور ایف آئی اے کا الزام ہے کہ ایف سی والے ہمارے اختیارات میںمداخلت کررہے تھے۔ جبکہ ایف سی ترجمان کا کہنا ہے کہ سفری دستاویزات چیک کرنا ہمارا اختیار ہے۔ یقینی طور پر دونوں اداروں کے اختیارات متعین بھی ہیں اور ان کے اپنے اپنے نظام بھی ہیں لیکن اصل بات کی تہہ تک اگر نہیں پہنچا گیا تو مزید خرابیاں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ایف آئی اے والے ایسے کون سے مال کو چیک کررہے تھے کہ ایف سی اہلکاروںکو وہاں آکر مداخلت کرنا پڑی۔ سرحدوں پر سارا جھگڑا مال کلیئر کرانے کا ہوتا ہے۔ ڈیوٹی پر مامور افسر اور عام اہلکار بھی بادشاہ ہوتا ہے وہ جس کا چاہے کروڑوں کا مال کلیئر کردے اور جس کا چاہے ایک تھیلا بھی ہو وہ ضبط کرلے۔ پاک افغان طور خم بارڈر پر بہت سا مال اور بہت سے ایسے لوگ آتے جاتے ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں اعتراضات ہیں۔ یقینا یہ محض اختیارات میںمداخلت کا معاملہ نہیں مفادات کا ٹکرائو لگتا ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ پورے ملک میں تمام ادارے ملازمین تاجر وغیرہ سب دیکھ رہے ہیں کہ جس ادارے کے پاس طاقت اور اختیارات ہیں وہ ہر معاملے میں مداخلت کرنا ہے اور باوقار بھی رہتا ہے۔ اس کے احکامات کی خلاف ورزی کی مجال کوئی نہیں کرتا۔ حالیہ انتخابات میں یہ تماشا بھی قوم نے دیکھ لیا ہے۔ الیکشن کمیشن مفلوج عدالتیں گنگ، میڈیا خاموش یہ سب بھی اسی رویے کا شکار ہیں کہ طاقتور ہر جگہ مداخلت کرکے پورا نظام تلپٹ کردیتا ہے۔ طور خم بارڈر کا تنازعہ فوری طور پر معاملہ رفع دفع کرواکر کام بحال کروادیا گیا لیکن یہ معاملہ رفع دفع کرکے مٹی پائو والا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوںگے۔ ممکن ہے یہاں ایف سی اہلکاروں کو ملزم قرار دے کر کوئی کارروائی بھی ہوجائے لیکن ملک میںجو خرابی ہورہی ہے وہ محض طورخم بارڈر کی خرابی نہیں ہے۔ ہر ادارہ اپنا بارڈر کراس کررہا ہے۔ سب سے زیادہ امید عدلیہ سے کی جاتی ہے لیکن اس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ عدلیہ بھی کسی کے اشارے کی منتظر نظر آتی ہے۔ اس کے اپنے فیصلے عمل کے منتظر ہیں۔ ایک ہی موضوع پر کئی کئی فیصلے آنے کے باوجود خاموشی ہے، صرف لاپتا افراد کا معاملہ دیکھ لیں عدالتوں کے اختیار میں کسی کی مداخلت تو ہے کہ وہ کھل کر فیصلہ بھی نہیں دے سکتیں اور فیصلہ دے دیں تو عمل نہیں کراسکتیں۔ پارلیمنٹ کے تو کیا کہنے اس کی اب کوئی حدود نہیں رہ گئی ہیں۔ سارے اختیارات کسی اور جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔ باقی ادارے بھی نمائشی ہیں، پھر اسی طرح ہوتا ہے کہ جس کو جب موقع ملتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ طورخم واقعے کی تفصیلی جانچ پڑتال بھی ہونی چاہیے اور اداروںکو اپنے اپنے دائروں میں کام کرنے کا پابند بھی بنانے کی ضرورت ہے۔