خرابیاں حکومت کی ٹیکس عوام پر

267

پاکستان کی نئی حکومت جو پرانی حکومتوں کا تسلسل ہے وہ اقتدار میں آتے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اب تک حکومت ۵۸ کھرب روپے ٹیکس وصولی سے قاصر رہی ہے۔ صرف پیٹرولیم کے شعبے میں اسمگلنگ ٹیکس چوری اور دیگر عوامل جو یقینا اقربا پروری اور خاص لوگوں کی مراعات ہیں کی وجہ سے ۶۹۹ ارب روپے ٹیکس کا فرق ہے۔ اسی طرح ہر شعبے میں ٹیکس ہدف اور وصولی میں فرق آرہا ہے ریٹیل سیکٹر میں ۸۸۸ ارب، ٹرانسپورٹ میں ۵۶۲ ارب، آئی پی پیز میں ۴۹۸ ارب اور برآمدات میں بھی ۳۴۲ ارب ٹیکس کا فرق ہے۔ اسی طرح اسمگل شدہ اشیاء کی وجہ سے ۳۰۰ ارب، رئیل اسٹیٹ سے ۱۴۸ ارب اور سیلز تیکس ریونیو میں ۲۹ کھرب تک یہ فرق جاسکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو یہ ساری باتیں ایک بریفنگ میں بتائی گئیں لیکن شہباز شریف ان سب باتوں کا کیا کرسکتے ہیں وہ صرف عوام پر نیا ٹیکس لاد سکتے ہیں۔ چنانچہ گیس کی قیمتوں میں سال میں تیسری مرتبہ اضافے کی تیاری ہے۔ جتنے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے یہ سب بڑے بڑے شعبے ہیں اور اسمگلنگ، پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ اور ٹیکس چوری، آئی پی پیز سیکٹر یہ سارے شعبے براہ راست حکومتوں اور ان کے اداروں کے زیر نگرانی ہیں ساری خرابی حکومتی جانب ہے لیکن سارا بوجھ عوام پر ہے۔ پیٹرولیم سے ٹیکس، بجلی سے ٹیکس، گیس سے ٹیکس، دوائوں پر ٹیکس، پانی پر ٹیکس، غرض ہر چیز پر ٹیکس، عوام ٹیکس پر ٹیکس دے رہے ہیں لیکن حکومت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ حکومت کے معاشی ماہرین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسائل کا حل نکالنے بیٹھے ہیں۔ اجلاس پہ اجلاس اور نتیجہ ٹیکس در ٹیکس ہوتا ہے۔ جن بڑے بڑے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سب بڑوں کے معاملات ہیں حکومت اگر عوام کے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں کمی بھی کردے گی تو اسے فرق نہیں پڑے گا۔ اگر یہ سارے شعبے ٹھیک کرلیے جائیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے تو بہت سے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ سیلز ٹیکس میں حکومت کو ۲۹ کھرب تک کے فرق کا سامنا ہے جبکہ یہ سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیا جاچکا۔ یا تو بڑی کمپنیاں سیلز ٹیکس کا ریکارڈ درست نہیں رکھتیں یا اس میں سرکار کی ملی بھگت سے ڈنڈی مارتی ہیں۔ حکومت پیٹرولیم سمیت تمام قسم کی اسمگلنگ روکنے کی ذمے دار ہے لیکن اب تو واضح ہوتا جارہا ہے کہ اسمگلر ایمانداری سے سب کا حصہ پہنچادیتے ہیں پھر جھگڑا نہیں ہوتا۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات ہورہے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں کہ ایک نئی کمیٹی بنادی گئی نیا کمیشن بنے گا۔ کام میں تیزی لانے کے لیے ایک مانیٹرنگ سیل قائم ہوگا ای سی سی کی تشکیل نو کردی گئی۔ وزیراعظم خود آئی ایم ایف کے قرضوں کے نظام کی مانیٹرنگ کریں گے اور بات ختم۔ البتہ کچھ مزید اداروں افسران اور کمیٹیوں کے اضافے سے اخراجات میں اضافہ ضرور ہوجائے گا۔ عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ عمل بند ہونا چاہیے۔ لیکن اس میں سب سے اہم مسئلہ عوام خود ہیں جب تک وہ بے وقوف بننے پر تیار ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔