نئی حکومت اور اس کے چیلنجز

380

ملک میں الیکشن نتائج کے بعد قائم ہوئے والی پارلیمنٹ اور حکومت کو کئی چیلنجز ورثے میں ملیں ہیں۔ یہ چیلنجز کثیر الجہتی نوعیت کے ہیں۔ سب سے پہلا چیلنج ملکی معیشت اور کاروبار کی بحالی ہے۔ مئی جون میں بجٹ پیش ہونا ہے جونئی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ہو گا۔ حکومت کی معاشی حکمت عملی کا پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی ڈیلنگ ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ الجھنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ معیشت کو اس کے اصولوں کے مطابق چلانا پڑے گا معاشی اور مالیاتی معاملات کو سیاست کی عینک سے دیکھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ نئی حکومت کو مالی ڈسپلن کی اعلیٰ مثال قائم کرنی ہوگی نئی حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ حکومتی اخراجات کو کم سے کم رکھے۔ وفاقی کابینہ کا سائز مختصر ہونا چاہیے۔ مشیران اور معاونین کی تعداد بھی انتہائی کم ہونی چاہئیں جہاں ناگزیر ہو وہاں ہی مشیر وغیرہ تعینات ہونا چاہیے۔ محض نوازشات کے طور پر عہدے تقسیم نہیں کیے جانے چاہئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے زیادہ عہدے بنتے جائیں گے سرکاری خزانے پر اتنا ہی بوجھ بڑھتا جائے گا۔ آئی ایم ایف بھی بار بار یہی کہتا آ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو کم کرے۔

ملک کے خوشحال طبقات سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے جانے چاہئیں، غیر منقولہ بڑی بڑی جائدادوں پر دولت ٹیکس کی شرح بڑھانی چاہیے شہروں کے ارد گرد ایکڑوں پر پھیلے ہوئے فارم ہاؤئسز کے مالکان پر دولت ٹیکس عائد ہونا چاہیے اور اس کی شرح جائداد کے تناسب سے مقرر ہونی چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی پالیسی پر چلنا ہو گا۔ صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں جو وزارتیں اور محکمے ہیں ان کی گورننس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتالوں میں مختلف قسم کے ٹیسٹ کرنے والی مشینیں اکثر اوقات خراب ملتی ہیں یا ان کے رزلٹ درست نہیں ہوتے۔ سرکاری عملہ اپنے نان پر وفیشنل ازم کی بنیاد پر مریضوں اور ان کے لواحقین کو مس گائیڈ کرتا ہے۔ بعض اوقات جان بوجھ کر بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مشینیں خراب ہیں۔ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا انتظام انتہائی خراب ہے۔ اس کے برعکس وفاق کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں کی گورننس خاصی حد تک بہتر ہے۔ لہٰذا نئی صوبائی حکومتوں کو شعبہ ہیلتھ کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

پاکستان میں سیاسی اشرافیہ عموماً خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی یا سیکورٹی مسائل پر بات نہیںکرتا اگر کرتے بھی ہیں تو بہت ہی سرسری اور سطحی انداز سے کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بعض ایسے وعدے بھی کر جاتی ہیں جن کا پورا ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی معاشی پلان عوام کے سامنے رکھیں تا کہ انہیں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔ زراعت کی حالت بہت خراب ہے۔ نئی حکومت کو زرعی خود کفالت کے لیے کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کے پاس وسیع و عریض زرعی رقبہ موجود ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں آلو سے لے کر سبز مرچوں تک سبزی در آمد ہوتی ہے۔ اسی طرح گندم کی بمپر فصل ہونے کے با وجود آٹے کی قلت ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ نئی حکومت کے کار پروازوں کو بھی حقائق کا علم ہے۔ اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو پاکستان باآسانی زرعی خود کفالت حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اس وقت عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدور و کسان مسائل سے عاجز آکر شہروں میں مزدوری کر رہا ہے۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اور یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگئے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے حالانکہ ترقی صرف ایک مختصر سا طبقہ کر رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی ڈھانچے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ سرکاری اسکولوں کالجز اور یونیورسٹیوں میں اسٹاف کی بھرتی کے نظام میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جہاں ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ ادویات کی قیمتیں کم کرنا بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑاچیلنج ہے۔ 2024 میں بھی روز مرہ استعمال کی اشیاء کی مہنگائی نے غریب طبقے کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کا ہے۔ ایک عام پڑھے لکھے پاکستانی کو اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے نے اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے بند کر دیے ہیں۔ درمیانے طبقے کے لیے کا روبار کرنا آسان ہے اور نہ ہی اسے اچھی ملازمت ملتی ہے۔ ریاست کے وسائل کا رخ ایک مخصوص طبقے کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ ملازمتیں بھی ان کے پاس ہیں بڑے کاروباروں پر بھی وہ قابض ہیں۔ بڑے زمیندار بھی وہی ہیں۔ سیاست پر بھی انھی کا قبضہ ہے ریاستی اور محکمہ جاتی قوانین بھی وہی بناتے اور اسے ختم کرتے ہیں۔ نئی حکومت کو آئین میں موجود ایسے آرٹیکلز اور شقیں ختم کرنا ہوں گی جو انتہا پسند طبقے کو قوت فراہم کرتی ہیں۔ آئین میں موجود مختلف آرٹیکلز اور شقوں میں جو ابہام ہے انہیں بھی ختم کرنا نئی پارلیمنٹ کی بنیادی ذمے داری ہے۔ تفتیش کے نظام کو اس وقت تک بہتر نہیں کیا جاسکتا جب تک تفتیشی افسر اور عملے پر احتساب کا شکنجہ نہیں کسا جاتا۔ اس طرح عدلیہ کے حوالے سے بھی چیک اینڈ بیلنس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر نئی پارلیمنٹ ان سارے معاملات کو حل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا عمل شروع ہو گا۔ معاشرے میں استحکام پیدا ہوگا جرائم میں کمی ہوگی اور معاشی سرگرمیاں بہتر ہوںگی۔ سرکاری عملے کی کار کردگی بہتر ہوگی کیونکہ اسے پتا ہوگا کہ اگر وہ کام صحیح نہیں کرے گا تو اس کا احتساب ہو جائے گا۔ نئی حکومت کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور نئی حکومت کے پاس وقت بھی بہت ہے۔ پانچ سال کا وقت تھوڑا نہیں ہوتا قانون سازی کے لیے تو زیادہ وقت کی ضرورت ہی نہیں ہوئی حکومت کو اپنے پہلے 100دن میں کم از کم قوانین کی بہتری کے عمل کو مکمل کر لینا چاہیے اگر نئی حکومت یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کے لیے آگے کام کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے پہلے 100 دن میں کیا کرتی ہے اور جو وعدے اس نے عوام سے کیے ہیں وہ کیسے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔