کفایت شعاری کی مہم اور پونے تین کروڑ کے ٹائر

623

پی ڈی ایم 2 کی نئی نویلی حکومت کے وزیر اعظم ملک میں کفایت شعاری کے سلسلے میں تجاویز مانگ رہے ہیں دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بلٹ پروف کار کے ٹائر کی خریداری کے لیے پونے تین کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کرلی گئی ہے۔ ہم شروع سے یہ بات دیکھتے چلے آرہے ہیں جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو وہ سرکار کے شاہانہ اخراجات پر بڑا شور مچاتی ہے، اور پھر جب وہ خود برسراقتدار آتی ہے تو اپنے سابقہ دعوں کو بھول جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک کی معاشی حالت انتہائی تباہ کن ہے اس کی بحالی کے لیے کچھ جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کیا موجودہ حکمران اس طرح کے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ن لیگ کی اخلاقی حیثیت ویسی نہیں ہے جیسی پچھلے ادوار میں رہی ہے کہ وہ عوام کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر آتے تھے۔ ایک زاویے سے دیکھا جائے تو فروری 2024 کے انتخاب میں سب لوگ یا ادارے کامیاب ہوئے ہیں۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کامیاب نظر آتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت انفرادی طور سے واضح اکثریت میں نہیں جیت سکی کہ وہ آسانی سے بغیر کسی خفیہ قوت کی مدد کے حکومت بناسکے اور اب جو بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے گی اسے لازمی طور پر کچھ سہاروں کی ضرورت پڑے گی، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پارٹی اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہوگی اسے ہر وقت کسی بڑے سرکار کے چشم ابرو کو دیکھتے رہنا پڑے گا۔ سیاسی جماعتوں میں ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہے اس طرح وہ اپنی حقیقی کامیابی پر خوش ہے تو دوسری طرف اس جیت کے نتیجے میں اقتدار نہ ملنے پر نا خوش ہے۔ ن لیگ اکثریت میں ووٹ نہ ملنے کے باوجود اقتدار میں آگئی یا لائی گئی یہ اس کی فتح ہے، پی پی پی تیسرے نمبر پر آئی اور صدر پاکستان کا عہدہ حاصل کرلیا یہ اس کی فتح ہے۔

ہمارے ملک کی اقتداری سیاست کے اس وقت چار ستون ہیں اسٹیبلشمنٹ، تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی۔ ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے یہ سب ناکام ہوئے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی تو واضح ہے کہ وہ ملکی سیاست میں تحریک انصاف کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی سابقہ انتخابات میں اس کی نیک نامی پر جو منفی تاثر پڑا تھا وہ اس الیکشن میں اور زیادہ گہرا ہو گیا۔ تحریک انصاف کی ناکامی یہ ہے کہ وہ زیادہ ووٹ اور زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود اقتدار سے کوسوں دور ہے بلکہ جس صوبے میں اقتدار ملا ہے اس کے تسلسل کے امکانات بھی معدوم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ن لیگ کی ناکامی یہ ہے کہ ن لیگ کے مرکزی رہنما یان کرام انتخابات سے پہلے ایک سو بیس سے زائد سیٹوں پر جیتنے کا دعویٰ کررہے تھے وہ جیت نہ ہوسکی۔ ن لیگ کی دوسری ناکامی یہ کہ اس کے مرکزی اہم لیڈران الیکشن نہ جیت سکے تیسری ناکامی یہ ہے کہ نواز شریف کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا چوتھی ناکامی یہ کہ نواز شریف کا امیج جو الیکشن سے پہلے جس بلندی پر تھا الیکشن کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگرا۔ وہ شخصیت جس کے نام پر اس کی پارٹی کے امیدواران الیکشن کا معرکہ جیت لیتے تھے۔ خود اس کا یہ حال ہوگیا کہ دو میں سے ایک سیٹ پر وہ ہارگئے اور دوسری جیت پر بھی شکوک وشبہات کے سائے گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ناکامی یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو کچھ بحال کرنا چاہتے تھے اس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ دوسری ناکامی یہ کہ وہ بلاول کو وزیر اعظم نہ بنا سکے۔ ویسے کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ن لیگ معاشی بحران پر قابو نہ پا سکے گی اور اس کی مقبولیت کا سورج سال ڈیڑھ سال بعد غروب ہو جائے گا پھر اس کے بعد بلاول کی وزارت عظمیٰ کا سورج طلوع ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

معاشی بحالی کے حوالے سے شہباز شریف نے قوم سے کفایت شعاری کے حوالے سے تجاویز مانگی ہے لیکن شاید انہوں نے اپنی بھتیجی سے کوئی تجویز نہیں مانگی اسی لیے ان کی کار کے ٹائر کی خریداری کے لیے پونے تین کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کچھ اچھی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں صدر پاکستان اور کچھ دیگر لوگوں نے اپنی تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپنے 40افراد کے اسٹاف کو واپس کردیا اور صرف 6افراد سے اپنے دفتر کا کام کریں گے اور اپنی دیگر مراعات بھی چھوڑنے کا کہا ہے اسی طرح بیرونی ممالک میں سرکاری دوروں کے حوالے سے موجودہ حکومت نے جو فیصلہ کیا اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہم یہی کہیں گے موجودہ حکومت نے سادگی اور کفایت شعاری کے حوالے سے جو منہنی سا آغاز کیا ہے وہ بھی غنیمت ہے۔ ہمارا تو کہنا یہی ہے کہ جس طرح علیم خان نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے اسی طرح دیگر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کو بھی آگے بڑھ کر ایسا ہی اعلان کرنا چاہیے۔ ہمارے یہاں ایوان بالا اور ایوان زیریں میں جو لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں وہ کوئی بھوکے ننگے نہیں ہوتے کہ اگر وہ اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے تو بھوکے مر جائیں گے۔ میری تو رائے ہے کہ اجلاس کے موقع پر انہیں فضائی ٹکٹ تو ضرور دیے جائیں اور جو ٹی اے ڈی اے بنتا ہے وہ دیا جائے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ارکان بھی اپنا ٹی اے ڈی اے وصول کرتے ہیں جو اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوتے اس مہذب کرپشن کو بھی ختم ہونا چاہیے اسی طرح اسمبلی اسٹاف کی تنخواہوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے یہ لوگ ارکان اسمبلی کی کرپشن میں معاونت کرتے ہیں اور پھر للو چپو کرکے اپنی تنخواہیں بڑھواتے رہتے ہیں جبکہ ان کا کام اسی وقت ہوتا ہے جب اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو باقی دنوں میں تو یہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح ارکان اسمبلی کی کینٹین کی سہولت ختم کی جائے جو 5اسٹار اور 4اسٹار ہوٹلوں میں لنچ اور ڈنر کرتے ہیں اجلاس میں آکر ان کی جیب تنگ ہوجاتی ہے۔

ایک سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کفایت شعاری کے حوالے اپنے دور میں کچھ کامیاب اور قابل عمل اقدامات کیے تھے بالخصوص وزراء کی کاروں کے حوالے سے ان کا جو فیصلہ تھا اس کو دوبارہ نافذ کرنے کی ضرورت ہے ابھی تو میں نے اشرفیہ یا اعلیٰ گریڈ کے سرکاری ملازمین کی مراعات کی بات ہی نہیں کی ہے، جو 17ارب روپے سالانہ سے زیادہ کی ہیں، یہ بڑے سرکاری ملازمین اپنے اعلیٰ منصب کا فائدہ اٹھا کر اپنے مطلب کی قانون سازی کرتے ہیں اور اپنی ناجائز اور بے جا مراعات کو قانون اور ضابطے کے مطابق بنا لیتے ہیں ان کے صرف کاروں کی تعداد دیکھ لی جائے اور پہلے مرحلے پر اضافی کاروں کا فلیٹ واپس لیا جائے اور پٹرول کی سہولت کے بجائے انہیں ماہانہ پٹرول کھپت کے حساب سے رقم دے دی جائے اور جو ڈی سی اور کمشنر صاحبان اور دیگر سرکاری افسران کئی ایکڑوں پر پھیلی ہوئی رہائش گاہوں پر اپنی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں وہ زمینیں ان سے واپس لے کر فروخت کی جائیں تو حکومت کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ کراچی کے سابق ناظم سٹی نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ نے اپنی پوری مدت نظامت کی تنخواہ نہیں لی تھی اور آخر میں ساری رقم سیلاب متاثرین کے فنڈ میں الخدمت کو دے دی تھی۔