’’ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی کہاں ہے؟‘‘

523

قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جرم بے گناہی کی پاداش میں 21 سال امریکی قید میں گزار چکی ہیں۔ 2003ء میں کراچی سے اچانک تین کمسن بچوں سمیت لاپتا ہوجانا، پہلے امریکی و پاکستانی حکام کا گرفتاری سے انکار، پھر 2008ء میں افغانستان سے بازیاب ہونا، اور پھر امریکی فوجیوں پر حملے کے لغو الزام میں غیرقانونی طور پر افغانستان سے نیویارک منتقل کرنے کا عمل بتاتا ہے کہ عافیہ بے گناہ تھی کیونکہ اگر اس نے کوئی جرم کیا تھا تو اسے پانچ سال تک تین کمسن بچوں سمیت جبری گمشدہ کیوں رکھا گیا تھا؟ اور اس کے بچوں نے کیا جرم کیا تھا؟۔ 2003ء میں جب عافیہ کو اغواء کر کے لاپتا کیا گیا تھا تو پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ جب وہ 2008ء میں افغانستان سے بازیاب ہوئی اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا گیا تو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ اس کے بعد بالترتیب پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور اب پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ تمام حکمرانوں نے عافیہ کو قوم کی بیٹی کہا، اسے بے گناہ بھی مانا مگر امریکا سے رہائی کا مطالبہ کرنے کی جرأت کسی نے نہیں کی۔

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر آئینی پٹیشن نمبر 3139/2015 کی آخری سماعت 5 اپریل 2024 ء کو ہوئی۔ گزشتہ سماعت میں عدالت نے اس کیس میں، وزارت خارجہ اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کے ساتھ بیرسٹر محمد علی سیف اور محترمہ زینب جنجوعہ کو معاونت کے لیے مقرر کیا تھا۔ 5 اپریل کی سماعت میں بیرسٹر محمد علی سیف ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کو پڑھنے کے بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ ان 21 سال میں حکومت پاکستان نے قانونی بنیادوں یا ریاستی سطح پر شاید ہی عافیہ کی رہائی یا امریکا میں پاکستانی قیدیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوئی کام کیا ہے۔ جس پر معزز عدالت نے برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت نے ابھی تک ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی انتظامیہ کو باضابطہ خط نہیں لکھا۔

ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل کلائیو اسمتھ کا یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں موجود ہے۔ یہ بات سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں جو باقاعدگی سے اس کیس کی سماعت میں شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کے اپنے آخری خطاب میں بھی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ جس کے جواب میں سینیٹر اسحاق ڈار جو اب وزیر خارجہ بھی ہیں، نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ مسلم لیگ نے ماضی میں امریکا کے سامنے اٹھایا تھا مگر پھر بیرسٹر محمد علی سیف نے عدالت میں یہ کیوں کہا کہ ’’اس کیس کو پڑھنے کے بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ ان 21 سال میں حکومت پاکستان نے قانونی بنیادوں یا ریاستی سطح پر شاید ہی عافیہ کی رہائی یا امریکا میں پاکستانی قیدیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوئی کام کیا ہے‘‘۔

عافیہ موومنٹ کے ترجمان اور کوآرڈینٹر ہونے کے ناتے، ملک بھر سے لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، باالخصوص اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کے بعد لوگوں کی امیدیں، تجسس اور دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی حوصلہ افزاء پیش رفت اور اقدامات کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں رکھی ہوئی ہے‘‘ تو لوگوں کا یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ ’’اسلام آباد میں یا راولپنڈی میں؟ اور بعض لوگ تو حسرت کے ساتھ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ یہ لوگ عافیہ کو کبھی واپس نہیں لائیں گے۔

عوام کیا جانتے ہیں، کتنا جاتے ہیں اور کس طرح سوچتے ہیں؟ اس کی پروا کسی کو نہیں ہے جبکہ ہمارے ریاستی حکام جن میں سیاسی، عسکری، عدالتی اور بیوروکریٹس شامل ہیں، کو عوام کی سوچ اور جذبات کی پروا اور احترم کرنا چاہیے۔ ایک عام شہری جسے کچھ بھی مفت میں نہیں ملتا وہ پاکستان اور اس کے اداروں سے بے حد محبت کرتا ہے جبکہ دوسری طرف ریاستی حکام ہیں جن کے لیے طبقہ اشرافیہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، ان کے لیے ملک کے تمام وسائل مفت میں دستیاب ہیں۔ ایک عام شہری افواج پاکستان سے دلی طور پر گہری عقیدت رکھتا ہے اس لیے اس ادارے سے وابستہ بااختیار حکام کو عوام کے جذبات کا مکمل طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی اپنی ساکھ کا خیال رکھنا چاہیے جس کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ نہ جی ایچ کیو کی مدد کے بغیر اقتدار میں آ سکتے ہیں، نہ کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکومت چلا سکتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں جگہ موجود ہے۔ سول اور ملٹری قیادت کو مل کر ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانا چاہیے۔ ڈاکٹر عافیہ کی ذہنی و جسمانی ناگفتہ بہ صحت کے بارے میں ان کے وکیل کلائیو اسمتھ تفصیل سے حکومت، عدالت اور عوام کو آگاہ کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی محب وطن فیملی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اخلاقی اقدارکی حامل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے 86سال کی ظالمانہ سزا سنانے والے امریکی جج رچرڈ برمن کو کمرہ عدالت میں ہی معاف کردیا تھا۔ وہ وطن واپسی کے بعد بھی کسی کے لیے خطرہ نہیں بنے گی، ڈاکٹر عافیہ کی فیملی اس کی ضمانت دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ 21 سال یعنی 2 دہائی سے زائد کا عرصہ کا فی طویل ہوتا ہے۔ عوام گزشتہ 2 دہائیوں سے ڈاکٹر عافیہ کی امریکی قید ناحق سے رہائی اور وطن واپسی کا انتظار کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی سے اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہوگا اور عوام میں ریاستی اداروں کی ساکھ بہتر ہوگی اور عوام کی عقیدت اور محبت میں مزید اضافہ ہوگا۔