ماہ رمضان میں غزہ لہولہان

414

غزہ کے بارے میں لکھنا شروع کروں تو سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں، اْمت مسلمہ کی بے حسی پر لکھوں یا اْن مظلوم فلسطینیوں کی نسل کْشی پر یا اْن دلیر اور بہادر فلسطینیوں پر جو جذبہ جہاد سے سرشار ہزاروں مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور نوجوان مردوں کی شہادت کے بعد بھی پْر عزم اور شوق شہادت کا جذبہ لیے اپنے ربّ سے راضی ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس کو دیکھ کر بے اختیار آنسو نکل پڑے وہ معصوم بچہ جو لگ بھگ 14 سال کا ہوگا ایک خالی برتن لیے لہک لہک کر چل رہا تھا اور خالی برتن دیکھا کر کہہ رہا تھا طویل مسافت طے کر کے اْس جگہ پہنچا تھا جہاں کچھ کھانے کو مل رہا تھا مگر جب تک میں وہاں پہنچا کھانا ختم ہو چکا تھا، مگر اس کے باوجود بھی اْس کے چہرے پر نہ دکھ تھا نہ ملال وہ اپنی معصوم سی مْسکراہٹ کے ساتھ اپنے ربّ کی رضا پر راضی اور شاکر تھا، جب اس سے صحافی نے سوال کیا کہ اب تم کیا کھائو گے، تو اْس کا جواب 57 اسلامی ممالک اور اْن کی فوجوں اور دنیا میں بسنے والے 2 ارب مسلمانوں کے منہ پر زور دار تماچہ تھا اْس نے مْسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’حَسبْنَا اللَّہْ وَنِعمَ الوَکیلْ‘‘ انبیا کی سر زمیں پر پلنے والے اس معصوم بچے نے یہ ثابت کر دیا، ہم فلسطینی حالت جہاد میں رہتے ہوئے ایمان و یقین کے ساتھ اپنے ربّ سے ملنے کے لیے ہر آزمائش کے لیے تیار ہیں، جہاں بھوک سے موت اور قدم قدم پر بارود سے لاشوں کے انبار ہیں تم فوجی لشکر بنا کر اور ایٹم بم رکھ کر مطمئن رہو، مگر میرے لیے میرا اللہ کافی ہے، تم سے بہتر تو وہ 35 سالہ کافر تھا جو امریکی فضائیہ کا سپاہی تھا جس کا دل غزہ میں ہونے والی فلسطینی عوام کی نسل کشی پر آبدیدہ تھا، اور پوری دنیا میں نہ صرف احتجاج کرتا رہا پھر ایک دن دل برداشتہ ہو کر امریکا میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے امریکی فضائیہ کا یونیفارم پہنے یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو آگ لگا کر جان دے دی، کہ میں فلسطین پر ہونے والے ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا، اس کی موت کیسی تھی میں اس بحث میں نہیں پڑتا بس اتنا ضرور کہوں گا اس امریکی فوجی کا بوٹ 57 اسلامی ممالک کی فوج سے کہیں محترم تھا جو آخری وقت تک اپنی زباں سے صرف یہ جملہ ادا کرتا رہا، غزہ غزہ غزہ اور اپنی جان دے دی، مگر اْمت مسلمہ رمضان المبارک کے ان دنوں میں جہاں اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر ہے خاموش اور بے حس بنی تماشا دیکھ رہی ہے اور فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، اور پوری مسلم دنیا رمضان المبارک کے اس مہینے میں سحر و افطار میں انواع اقسام کے کھانے اور رات تراویح اور قیام اللیل میں کھڑے ہو کر اپنے ربّ کو راضی کرنے میں لگے ہیں جب کہ دوسری طرف انبیا کی سر زمین لہو لہان ہے جہاں عین افطار کے وقت اْن پر گولے بارود برسائے جا رہے ہیں، کیا روز محشر ہم اپنی ان عبادات کے عوض اپنے ربّ کو راضی کر سکیں گے؟ باری تعالیٰ جب ان پر راکٹ برسائے جا رہے تھے ہم قیام اللیل میں تھے وہ معصوم بچے جب بڑی بڑی بلڈنگوں کے ملبے تلے دبے ہمیں پکار رہے تھے تو ہم اْس وقت افطار کر رہے تھے، یاد رکھیں ایسی عبادات ہمارے منہ پر مار دی جائیں گی۔ وہ دن دور نہیں جب غزہ کے معصوم بچوں کا ہاتھ ہمارے گریبانوں پر ہو گا، پھر ہم کیا ربّ کے حضور سر اْٹھانے کے قابل ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل مزید جارحیت پر اْترا ہوا ہے، ایسے وقت میں حاکم وقت کو للکارنا چاہیے تھا، غیرت ایمانی یہ ہے کی اْن لوگوں کے خلاف اعلان جہاد کیا جائے جو زمین پر ظلم و فساد پھیلا رہے ہیں، چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ ہے دین کا اصل راستہ، جس سے رو گردانی کی جارہی ہے، آگر فی الفور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ثبوت دینا ہے اور اپنے ربّ کو راضی کرنا ہے تو حل صرف ایک ہے پوری پاکستانی عوام متحد ہو کر اپنے امریکی غلام حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں اور ان کو یہ باور کرائیں کہ اب سرکاری طور پر پاکستان میں موجود امریکا اور برطانیہ کے سفارت خانوں پر دھرنا دینا ہو گا۔ بیشک وہاں سحری کریں، افطار کریں، قیام اللیل کریں مگر امریکا کو یہ باور کرائیں اگر تین دن میں فلسطین میں جنگ نہیں رْکی تو پھر پاکستان میں یہ سفارت خانے بھی غزہ کا نقشہ پیش کریں گے نتیجہ جو بھی نکلے ہم مقابلہ کریں گے۔ موت تو برحق ہے ایک نہ ایک دن تو اْس کے حضور کھڑے ہونا ہے تو کیوں نہ اس طرح اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں کہ گردن اْٹھا کے کھڑے ہو سکیں، آئیے سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں غزہ کے لیے ایک آواز بنیں، کیونکہ روز محشر ہر شخص سے اْس کی انفرادی حیثیت سے بھی پوچھا جائے گا، کہ غزہ میں قتل عام ہو رہا تھا قبلہ اوّل لہو لہان تھا تو تم کیا کر رہے تھے، لہٰذا بہتر ہے کہ اْمت مسلمہ کے بے حس مسلمان حکمرانوں اور اْن کی ناکارہ افواج کی طرف نہ دیکھیں ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، وہ اپنے احساسات اور دین اسلام کی تعلیمات کو مغرب کی چمک دھمک میں سب کچھ بھلا بیٹھے ہیں، خدارا اْٹھیے میرا ارض فلسطین اور اْس میں رہنے والے میرے بہن بھائی لہو لہو ہے، ورنہ اللہ کے عذاب سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکے گا قوموں پر زوال اسی طرح آتے ہیں اور پھر قومیں تباہ کر دی جاتی ہیں، فیصلہ کرنا ہوگا وقت کم ہے۔