بھارت سے تجارت اور جے شنکر کا طمانچہ

416

وزیر خارجہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے تاجر اور کاروباری افراد چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارتی تعلقات بحال ہوں اور پاکستان بھارت سے تجارت بحالی سے متعلق جائزہ لے گا۔ انہوں نے وزیر خارجہ ہونے کے باوجود معیشت سے متعلق دوسری بات بھی کہی کہ شہباز شریف کی ۱۶ ماہ کی حکومت ملک کو صرف دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے تھی اور تحریک انصاف نے بارودی سرنگیں بچھا کر ملک کو دنیا کی ۲۴ ویں معیشت سے ۴۷ ویں معیشت بنادیا۔ وزیر خارجہ ذہنی طور پر اب بھی خود کو وزیر خزانہ و تجارت ہی سمجھ رہے ہیں اس لیے معیشت اور تجارت پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔ دونوں ملکوں میں سب سے زیادہ کامیاب چیز اسمگلنگ ہے اور بھارت کے لئیے سخت گیر یا نرم رویہ رکھنے والی حکومتوں میں سے کسی دور میں اسمگلنگ بالکل متاثر نہیں ہوئی۔ اس اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستانی صنعتوں کو بے حساب نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جہاں تک باضابطہ تجارت کی بات ہے تو کسی بھی ملک سے تجارتی تعلقات کے لیے اس ملک کی پالیسیوں، اس کی حیثیت، اقدامات اور رویوں کو پیش نظر رکھا جانا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا حکمران طبقہ طاقت کے سامنے مرعوبیت کا شکار رہتا ہے اس لیے ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ دنیا کی اتنی مضبوط اور بڑی مارکیٹ کو نظر انداز کرنا حماقت ہے۔ جناب اسحق ڈار بھارت کی محبت میں اتنی جلدی کھل کر سامنے آجائیں گے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابھی تو ملک میں تمام صوبوں اور مرکز میں بھی کابینائیں مکمل نہیں ہیں۔ انتخابی عمل جاری اور متنازع بھی ہے لیکن ڈار صاحب کو بھارت سے تجارتی تعلقات کی فکر ہوگئی۔ اور جو جواز دیا گیا ہے وہ بہت بودا ہے۔ آج کی دنیا مسابقت کی دنیا ہے اور بھارت جو چیزیں تیار کرتا ہے وہی چیزیں دنیا کے دوسرے ممالک بھی تیار کرتے ہیں، خصوصاً چین اور سی پیک پر بڑا زور ہے تو چین سے اپنی شرائط پر تجارت کیوں نہیں کی جاتی۔ بھارت سے تجارت میں تاجروں کی دلچسپی کی جو بات ڈار صاحب نے کی ہے وہ یکطرفہ ہے۔ پاکستان تاجر تو اسمگلنگ ختم کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ بھارت ایران افغانستان سب سے پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن تینوں سے خوب اسمگلنگ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر فوجی حملے اور زبانی جنگ بھی ہوتی ہے لیکن مجال ہے جو ایرانی پٹرول، بھارتی گٹکے، مین پوری، کپڑے چپلیں، مصنوعی زیورات وغیرہ کی آمد میں کمی ہوئی ہو اور پاکستان کے راستے افغانستان تک مال پہنچتا رہتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کبھی بند ہوتی ہے اور کبھی کھل جاتی ہے لیکن اسمگلنگ جاری رہتی ہے۔ اس عمل میں تاجروں سے زیادہ فائدہ ان کا ہوتا ہے جن کی ذمے داری اسمگلنگ روکنا ہے۔ اسی طرح اگر ڈار صاحب تاجروں کی خواہش کا ذکر کررہے ہیں تو کیا بجلی کے بلوں کی بنیاد پر تاجر ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔ وہ تو اپنی سیلز کی رسید کو ایف بی آر سے منسلک کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ٹیکس مین بھی دوہرے کاغذات تیار کیے جاتے ہیں۔ ملک کو ٹیکس دینے کو بھی بہت سے تاجر تیار نہیں ہیں۔ آخر بھارت کے ساتھ تجارت میں کس کا فائدہ ہے۔ اس کے ساتھ بھی اگر اسی کی شرائط پر تجارت کرنی ہے تو ایسی تجارت سے بہتر ہے نہ کی جائے۔ اسحق ڈار صاحب وزیر خارجہ ہیں انہیں تاریخ تو معلوم ہونی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہے۔ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرتا کشمیر میں مظالم بند نہیں کرتا وہاں من مانے قوانین مسلط کرنا نہیں چھوڑتا اس موضوع پر بات نہیں کی جانی چاہیے۔ ۲۰۱۹ میں جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے ضم کرلیا تھا تو اس وقت کی حکومت نے واحد ٹھوس کام یہی تو کیا تھا کہ بھارت سے تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرلیے تھے۔ لیکن (ن) لیگ کی حکومت نے آتے ہی بھارت سے تجارت کی باتیں شروع کردیں۔ کیا ایسا صرف اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ پابندی عمران خان کی حکومت نے لگائی تھی اب اسے ہٹانا قومی فریضہ بن گیا ہے۔ اسحق ڈار صاحب وزیر خارجہ بنیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خود بھی پڑھیں اور کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق رائے کو پارہ پارہ کرنے والے کام نہ کریں۔ کشمیر پر قوم کا متفقہ موقف ہے کہ اس مسئلے کے حل کے بغیر اس سے تجارت نہیں کی جائے گی۔ پہلے بھی دوستی بسیں، سمجھوتا ایکسپریس اور ثقافتی وفود کے تبادلے ہوچکے ہیں لیکن بھارت نے کبھی جذبہ خیرسگالی کا جواب خیر سے نہیں دیا بلکہ اس نے ہمیشہ دھتکارا ہے، حکمرانوں کی بے چینی کی وجہ سے پاکستان کی بے عزتی کی ہے۔ جوں ہی وزیر خارجہ اسحق ڈار نے لندن میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کی اسی کے ساتھ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے دو ٹوک انداز میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا۔ جے شنکر نے سنگاپور کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سوال پر انہوں نے پاکستان کو صنعتی طور پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دے دیا اور کہا کہ ماضی کو بھول کر بات چیت نہیں ہوسکتی۔ لیکن پاکستانی وزیر خارجہ ماضی اور قومی پالیسی کو بھلا کر بھارت سے تجارت کی بات کررہے ہیں۔ جے شنکر نے تو زیادہ جارحانہ انداز میں بات کی ہے کہ بھارت کا موڈ اب دہشت گردوں کو نظر انداز کرنے کا نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے وہ باتیں کی ہیں جو پاکستانی وزیر خارجہ کو کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن اس کے لیے پاکستانی عوام کا نمائندہ ہونا ضروری تھا اور ڈار صاحب پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتے تو نظر نہیں آتے۔ جے شنکر کا کہنا ہے کہ ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا پڑوسی مستحکم ہو۔ اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم پرسکون پڑوسی ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان ایسا نہیں۔ آپ اس پڑوسی سے کیسے نمٹ سکتے ہیں جو دہشت گردی کو صنعت کا درجہ دے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا بلکہ بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ بھارتی وزیر خارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کے انداز گفتگو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارت جو خود کشمیر پر قابض ہے وہاں کے مسلمانوں پر اور پورے بھارت کے مسلمانوں پر زندگی تنگ کررہا ہے، اس کا اپنا دہشت گرد گرفتار ہے اور پاکستان میں جاسوسی کا اعتراف کرچکا ہے وہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے اور ہمارا وزیر خارجہ بھارت سے تجارت کی بات کررہا ہے۔ اسحق ڈار صاحب دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ماضی کو ضرور بھلایا جاتا ہے لیکن بھارت جیسے ملک کے معاملے میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا قیام خود اس بات کی تصدیق ہے کہ ماضی کو نہیں بھلایا جاسکتا۔ انتہا پسند ہندو اب تو کھل کر سامنے آچکے ہیں ان کا ماضی اور ان کا حال اب بھی ایک ہے۔ بھارت تو پاکستان پر دہشت گردی کو صنعت کا درجہ دینے کا الزام لگارہا ہے لیکن بھارت میں تو دہشت گردی کو حکومت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کے تاجروں کو کیا ہوگیا ہے وہ اسحق ڈار کے بیان پر کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ ہم بھارت سے کشمیر کی قیمت پر تجارت ہرگز نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسرائیل سے تجارت کرلیں اس کے ساتھ تجارت میں تو دنیا کی ساری بڑی بڑی کمپنیاں پاکستان پر مہربانیاں کریں گی۔ خدا کے واسطے قومی عزت و وقار کو پامال نہ کیا جائے۔