ڈونلڈ لو ’’لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں‘‘

410

امریکا پاکستان کی سیاسی انجینئرنگ کا اہم کردار رہا ہے۔ امریکا نے جب چاہا پاکستان کے کسی سیاسی یا عسکری راہنما کے نام پر کاٹا لگا دیا پھر چشم فلک نے اسے مائنس ہوتے دیکھا۔ دونوں ملکوں کا سات عشروں کا تعلق اسی آنکھ مچولی سے عبارت ہے مگر تاریخ میں پہلی بار امریکا ایسی کوشش میں عوامی سطح پر اپنی ساکھ خراب اور ہاتھ زخمی کرچکا ہے۔ اس تعلق میں امریکا کے ایک حاضر سروس عہدیدار انڈر سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کو نہ صرف پاکستان کے عوامی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اب یہ معاملہ امریکا تک دراز ہوگیا ہے۔ عمران خان نے مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تال میل کو بھانپتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرناک ہوجائوں گا۔ اس وقت اس بات کا جم کر مذاق اُڑایا گیا تھا اور خطرناک ہوجانے کی بات پر مختلف کارٹون بنائے گئے تھے۔ مگر دوسال ہوگئے ان کی حکومت کا خاتمہ ایک اُلجھی ہوئی ڈور کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے سلجھانے میں بہت سوں کے پائوں اس میں پھنس چکے ہیں۔ صاف نظر آرہا تھا کہ یہ معاملہ ماضی کے کیسوں کی طرح فائلوں میں دفن نہیں رہے گا بلکہ بلاوں کے صندوق کے کھلنے کے مترادف ہوگا اور اس سے بلائیں نکل کر بہت دور تک پھیل جائیں گی۔ آج امریکی کانگریس میں پاکستان اور امریکا کے تعلق میں ڈونلڈ لو کا کٹہرے میں کھڑا ہونا۔ پریشاں حال اور ٹوٹے ہوئے لہجے کے ساتھ اپنا دفاع کرنا یہ بتا رہا ہے کہ زمانہ صرف امریکا یا پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے تعلق کے حوالے سے بھی بدل گیا ہے۔ یہ امریکا اور پاکستان کے تعلق کی پہلی سیاسی انجینئرنگ ہے جس میں دوسال سے امریکا بھی پھنسا ہوا ہے۔ وگرنہ ایسے کیس اور ایسی کارروائیاں امریکا کے لیے کبھی کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں۔ امریکا ایسے واقعات میں مچھر کو مسل کر گزر جاتا رہا اور اپنے پیچھے تھوڑا شور کچھ چہ میگوئیاں، چند تحقیقاتی رپورٹس اور بے شمار افسانے چھوڑتا رہا۔ اس کے بعد سب ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگتے تھے۔
لیاقت علی خان کے قتل سے بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کے جہاز تک کون سی کہانی ہے جس میں امریکا کا نام نہ آیا ہو مگر نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے بہائو کے ساتھ ہی سب کچھ بھلا دیا گیا اور نئی کہانی کا آغاز ہوگیا۔ عمران خان کی کیس میں تو صرف حکومت بدلی ہے مگر کھلے بندوں امریکا کا نام جلسوں میں لیا گیا۔ دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے والے اعلیٰ امریکی عہدیدار کا نام دوسال سے پاکستان کی سیاست میں گونج رہا ہے اور اب اسی ’’خطرناکی‘‘ کا دائر ہ امریکا تک پھیل گیا ہے جہاں ڈونلڈ لو کو بلا کر انتہائی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ اس اہم ترین کارروائی کے دوران ڈونلڈ لو کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا پاکستان اور امریکا کے تعلق میں ایسے واقعات کی کوئی مثال نہیں ملتی جب پاکستان میں پائی جانے والی شکایتوں پر ایک پنچایت سجائی گئی ہو اور امریکی اہلکار کو اس کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو۔ یہاں تو ریمنڈڈیوس نامی امریکی کنٹریکٹر دو پاکستانیوں کو دن دہاڑے گولیاں مار کر چلا گیا۔ دیت بھی پاکستانیوں نے ادا کی اور چند دن تھانے میں رہ کر جہاز میں بٹھا کر خصوصی اہتمام کے ساتھ بگرام ائر بیس پہنچادیا گیا اور پاکستان کا قانون ہاتھ ملتا اور منہ دیکھتا رہ گیا۔
ڈونلڈ لو جب اپنا موقف بیان کر رہے تھے تو پچھلی صفوں سے ان پر ڈونلڈ لو جھوٹا، شرم کرو اور عمران خان کو رہا کرو جیسے نعروں کا سامنا تھا۔ یہاں تک ان لوگوں کو ہال سے نکالے بنا بات نہ بن سکی۔ اس تضحیک نے ڈونلڈ لو کے دوسال کے زخم تازہ کردیے۔ دو سال سے وہ منظر سے غائب ہی رہے۔ پاکستان تو ان کے لیے خواب وخیال ہی ہو کر رہ گیا حالانکہ پاکستان ان کی ذمے داریوں کا اہم حصہ تھا۔ ڈونلڈ لو بھارت اور سری لنکا سے ہو کر چلے گئے مگر پاکستان میں قدم رنجہ نہ فرما سکے۔ ہوٹنگ اور نعروں کے درمیان وہ اس طرح کہہ رہے تھے کہ حکومت گرانے میں ان کا کوئی کردار نہیں جیسے یہ کسی عمارت کو بلڈوزر سے گرانے کا معاملہ ہو۔ جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہونی چاہیے اور دوچار سو گواہ بھی۔ کون کہتا ہے کہ ڈونلڈ لو نے تجاوزات کے انداز میں حکومت کے خلاف آپریشن کیا۔ بات صرف اتنی ہے کہ انہوں نے پاکستانی سفیر کو بلاکر دھمکیاں دیں اور سفیر نے ان دھمکیوں کو پاکستان میں اس نوٹ کے ساتھ بھیجا کہ اس زبان پر احتجاج کیا جانا چاہیے۔ اکثر لوگ اس بات کو حکومت گرانے میں اہم کردار سمجھتے ہیں اور ڈونلڈ لو اسے غلط بیانی یا جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے تو انہیں پاکستان کے سفیر امریکا اسد مجید پر ذاتی حیثیت میں مقدمہ کرنا چاہیے کہ جنہوں نے ان کی گفتگو کو غلط رپورٹنگ کرکے میں اسلام آباد بھیجا۔ پاکستان کے حکمرانوں سے احتجاج کرنا چاہیے جنہوں نے توہین سائفر کا مقدمہ بنا کر عمران خان کو ایک فرضی کہا نی میں سزا سنا ڈالی۔ ڈونلڈ لو کی بات سے لگتا ہے کہ ان دو برس میں سکون کی نیند وہ بھی نہیں سوئے۔ اسی لیے ان کا کہنا تھا کہ مجھے خاندان سمیت مار ڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
یوں بقول جون ایلیا
اس کی گلی سے اُٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی چلی گئی
جس بات کو اسلام آباد کی فائلوں میں ہی بند رہ کر ایک سر بستہ راز رہنا تھا وہ دنیا بھر کا موضوع بن کر رہ گئی اور یہاں تک کہ دوسال بعد امریکا کے اعلیٰ عہدیدار کو اپنی بے گناہی اور صفائی دینا پڑرہی ہے۔ ڈونلڈ لو نے یہ ماہ وسال جس انداز میں گزارے ہیں سائفر کے مبینہ مخاطب جنرل قمر جاوید باجوہ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ رفتہ رفتہ ان کی عوام میں رونمائی کم ہوکر نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے انہیں دنیا کے ہر کونے میں پاکستانیوں کے ردعمل کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ اس کھیل کا طاقتور اور پس پردہ کردار میاں نوازشریف سب کچھ کھونے کے بعد بھی بہت کم پاسکے ہیں۔ وہ خود کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا مستقل، جائز اور مناسب ترین امیدوار سمجھتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پنجاب کے مقبول راہنما کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ پر انہی کا حق فائق ہے۔ اپنے اور پرائے بھی ان کی اسی مقبولیت اور کراوڈ پُلر ہونے کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کی قبا کو انہی کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے مگر یہ دوبرس ان کی مقبولیت اور سیاست پر بہت بھاری گزرے۔ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہے تو پاکستانیوں نے وہاں بھی میلے سجا کر ان کے معمولات کو مشکل بنائے رکھا۔ ملک میں مقبولیت کی امید پر واپس آئے تو قانون کو اپنے آگے دست بستہ پایا اور بائیو میٹرک مشین کی صورت میں قانون ان کی قدم بوسی کرنے ائرپورٹ پر پہنچا مگر اس قدر شاہانہ انداز کی واپسی کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی مقبولیت تو دوبرس میں فسانہ بن گئی۔ انتخاب سے دو دن پہلے وزیر اعظم نوازشریف کی شہ سرخیاں لگوا کر نقصان کا ازالہ کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اشہبِ زمانہ طلب کا تازیانہ کھا کر بہت دور نکل چکا تھا اور آٹھ فروری کو انتخابات کے روزکہیں دور سے وقت کے گھوڑے کی ٹاپ ہی سنائی دے رہی تھی۔ ڈونلڈ لو کی بننے والی لائیو درگت ان کا ذاتی دُکھڑا بیان کرنے کا انداز بتارہا تھا کہ کہیں کچھ غلط ہوا ہے کہ جس نے بہت سوں کو استاد دامن کے اس شعر کی تصویر بنا دیا ہے
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی ہو روئے اسی وہی آں