معاشی عدم استحکام اور آئی ایم ایف

315

انتخابات کے بعد بھی پاکستان میں نہ ہی سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی معیشت مستحکم ہوتی نظر آرہی ہے۔ اِس وقت روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا، والا معاملہ ہے۔ عوام سسک سسک کر مررہے ہیں، ملک جل رہا ہے اور اشرافیہ بے حسی کی تصویر بنی یہ سب دیکھ رہی ہے۔ قرضوں کی معیشت نے ایٹمی پاکستان کو جکڑا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کو ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ ملک غیر ملکی قرضوں پر انحصار کررہا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 8مہینوں میں پاکستان نے 6 اعشاریہ 67 ارب ڈالر غیر ملکی قرضوں کی صورت میں لیے ہیں، جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں 7.76 ارب ڈالر حاصل کیے گئے تھے۔ حکومت نے رواں مالی سال میں 17.6 ارب ڈالر اکٹھے کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ تاہم اگر قرضوں کی آمد میں یہ کمی جاری رہی تو حکومت اپنے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہ سکتی ہے۔ بیرونِ ملک سے حاصل ہونے والے قرضوں میں کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے منسلک ہے اور اسے اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے سخت شرائط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے جس سے قرضوں کا حصول مہنگا ہوگیا ہے۔ غیر ملکی سرمائے کی آمد کی کمی اور قرض کی رقوم کی ادائیگی میں اضافے سے معیشت کو بڑا خطرہ لاحق ہے۔ اگر پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا تو اسے ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈیفالٹ ایسی صورتِ حال ہے جس میں ایک ملک اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس سے ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ، معاشی ترقی میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کا پورا دبائو ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے کئی تجاویز دی ہیں جن میں پٹرول پر لیوی 60 روپے فی لیٹر کرنے اور 18 فی صد جی ایس ٹی بحال کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کے بعد جاری اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بروقت بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح حکومت نے 35 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اسکیم تیار کی ہے جس میں تاجروں سے ٹیکس ماہانہ بجلی بلوں میں وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ تاجروں کی سالانہ آمدنی کو 12 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ٹیکس وصولی اصل شاپ اونر کے بجائے دکان پر کاروبار کرنے والے سے کی جائے گی، اس کے لیے بجلی کے بلوں میں تاجروں کے لیے ایک نیا کالم متعارف کرانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ اسی پس منظر میں بجلی صارفین پر 967 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ یقینا آئی ایم ایف کی ان تجاویز کے نفاذ سے عوام پر بوجھ تو بڑھے گا لیکن بات اتنی سادہ اور یہاں تک نہیں، یہ سارا کھیل ایک عرصے سے بڑے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ ملک کے اداروں کو بے وقعت بنانا اور پھر ایک ایک کرکے فروخت کرنا اس منصوبے کا حصہ ہے، جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز غیر مستحکم ہو اور اس میں افراتفری پھیلے۔ کہا جارہا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری جون تک ہوجائے گی جس کے لیے قانون سازی ہوچکی ہے۔ وفاقی وزیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ نقصان میں چلنے والے ادارے کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ہوگی۔ وطن ِ عزیز کی بدقسمتی ہے کہ اس کو صحیح حکمران آج تک نہیں مل سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر حکومت نے قوم کے ساتھ مذاق کیا۔ اصل میں یہ سب ایک ہیں اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کا پورا ساتھ انہیں حاصل ہے۔ یہ لوگ جب حکومت میں نہیں ہوتے اپنی سیاست چمکانے کے لیے جس کام کو غلط کہہ رہے ہوتے ہیں، حکومت میں آنے کے بعد وہی کام خود کررہے ہوتے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں، اس کا اندازہ موجودہ وزیراعظم کے صرف ایک بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا تو انہوں نے 7دسمبر 2022ء کو کہا تھا کہ ’’بجلی کی قیمت میں پونے 4 روپے اضافہ ظلم اور آئی ایم ایف کی غلامی کا ثبوت ہے‘‘۔ شہبازشریف نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کو بڑھانا آئی ایم ایف کی غلامی ہے، حکومتی سوچ اور اقدامات کو مسترد کرتے ہیں، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا گیا‘‘۔ شہبازشریف کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ (تحریک انصاف) حکومت کے تین سال اور چار ماہ میں روپے کی قدر میں 54 روپے اضافے پر قوم وزیراعظم کو چور کیوں نہ کہے؟ ایسے میں قوم کو ایک قابل، دیانت دار اور اہل قیادت کی ضرورت ہے‘‘۔ جب کہ آج کے وزیراعظم شہباز شریف وہی کررہے ہیں جس کی نفی کرتے تھے۔ ایسے وقت میں قوم کو جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے، مزید سخت فیصلوں کی نوید سنادی گئی ہے اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے ایک اور پروگرام لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت لگتا یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح شہبازشریف کی ’’دیانت دار‘‘ قیادت بھی آئی ایم ایف کے سامنے گرتی چلی جارہی ہے اور اس کی ہر بات مان رہی ہے تو سوال ہے کہ قوم انہیں کیا کہے؟ اسی لیے ان صفحات پر یہ بات بار بار کہی جاتی رہی ہے کہ پاکستان کی موجودہ بدترین صورت حال کسی ایک حکومت کا معاملہ نہیں ہے، یہ اشرافیہ اور ملک دشمن قوتوں کا کھیل ہے، اور یہ عالمی قوتوں کا ایک منظم عمل ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اصل میں دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور وہی نشانے پر ہے۔ قرضوں میں جکڑی پاکستان کی معیشت بے بسی کی تصویر بن چکی ہے۔ قرضوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے امریکا اپنے اصل مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان ملک دشمن حکمرانوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں والا معاملہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی منزل آئی ایم ایف کے راستے کبھی نہیں پاسکتا۔
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن