ـ23 مارچ … تجدید عہد کا دن

327

برصغیر کی تاریخ میں 23 مارچ کا دن ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس روز خطے کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک منزل کا تعین کیا تھا… برصغیر کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے قائد محمد علی جناح کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے لاہور کے وسیع و عریض منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) کا رخ کیا تھا… تقریباً ساٹھ ہزار نفوس کی گنجائش والے میدان پر مشتمل جلسہ گاہ پروگرام کے آغاز سے قبل ہی بھر چکی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے جلسہ گاہ کے اطراف میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے قائد کی تقریر سنی۔ جلسہ گاہ کے اسٹیج پر مسلم لیگ کے رہنما بڑی تعداد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے دائیں بائیں بیٹھے تھے، جن کی موجودگی میں ملت کے پاسباں، محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں ہندوستان کے انگریز حکمرانوں اور اکثریت کی بنیاد پر مستقبل کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والی ہندو قیادت کو پیغام دیا کہ مسلم ہندوستان اب باشعور اور بیدار ہو چکا ہے اور مسلم لیگ اتنی مضبوط تنظیم بن چکی ہے کہ اسے کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا۔ ہمیشہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت ہیں جب کہ در حقیقت کسی بھی تعریف کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں اور ہندوستان کے برطانوی نقشے کے مطابق مسلمان اس ملک کے بڑے حصوں میں اکثریت میں ہیں جیسے بنگال، پنجاب، این ڈبلیو ایف پی، سندھ اور بلوچستان۔ ہندوستان میں آباد ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ دونوں اقوام کے مابین روحانی، معاشی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی اختلافات خام خیالی نہیں بلکہ بنیادی اور گہرے ہیں۔ ایک ہزار سال کے قریبی رابطے کے باوجود ہندو اور مسلمان قومیں ایک دوسرے سے کہیں زیادہ مختلف ہیں جن کے کسی بھی وقت خود کو تبدیل کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی… اگر برطانوی حکومت برصغیر کے لوگوں کے امن و خوش حالی کو محفوظ بنانے میں مخلص اور سنجیدہ ہے تو ہم سب کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ ہندوستان کو خود مختار قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے بڑی قوموں کو الگ الگ وطن کی اجازت دی جائے۔ ایسا کرنے سے ایک قوم کی طرف سے معاشرتی نظام پر غلبہ حاصل کرنے اور ملک کی حکومت میں دوسرے پر سیاسی بالادستی قائم کرنے کی دشمنی اور فطری خواہش اور کوششیں ختم ہو جائیں گی …… ہندومت اور اسلام محض معنوں میں مذاہب نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں مختلف اور الگ الگ معاشرتی نظام ہیں۔ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب و فلسفے، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہ تو باہم شادی کرتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کا کھانا کھاتے ہیں… درحقیقت وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر متضاد خیالات اور تصورات پر مبنی ہیں قائد اعظم کے ان واضح خیالات اور دو ٹوک موقف کی روشنی میں اس دو روزہ اجلاس کے دیگر مقررین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پھر اسی کی روشنی میں اجلاس کے دوسرے روز مسلمانان ہندوستان کے لیے الگ وطن کے مطالبہ پر مبنی ایک قرار داد اس جم غفیر نے منظور کی اور پھر محض سات برس کی شبانہ روز انتھک جدوجہد کے نتیجے میں یہ تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوئی … ان سات برسوں کے دوران قائد اعظم نے ہر اہم موقع پر اس حقیقت کی وضاحت کی کہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کر کے عوام کو گھمبیر مسائل سے چھٹکارا دلانا اور صرف اور صرف اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہے… قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران بار بار اپنی تقریروں اور تحریروں سے واضح کیا کہ اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ سب پر محیط ہے اور وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ پیر صاحب مانکی شریف کے نام اپنے خط میں قائد اعظم نے ان سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے یقین دلایا کہ حکومت پاکستان جب بھی وجود میں آئے گی، اسلامی اصولوں اور تصورات کے مطابق آئین بنائے گی اور اس کے تابع نظام چلائے گی۔ پھر جب 24 نومبر 1945ء کو مانکی شریف میں استقبالیہ کے موقع پر سپاسنامہ میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر پاکستان بن گیا تو اس کا آئین کیا ہو گا ؟ اس کے بعد اردو تقریر میں قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ:۔ ’’آپ نے سپاسنامہ میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کون سا قانون ہو گا؟ مجھے آپ کے اس سوال پر سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ مجھ سے دریافت کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کون سا قانون ہو گا۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسلمان کا ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن ہے، یہی قرآن مسلمانوں کا قانون ہے، جو آج سے تیرہ سو سال پہلے حضرت محمدؐ کی وساطت سے ہمیں ملا ہے، یہی قرآن ہی ہمارا قانون ہے اور بس…‘‘

قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان کے عزائم کیا تھے، ان کا اندازہ ان کے ان خیالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ:۔ ’’جیسا کہ آپ کو علم ہے پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت ہے اور دنیا کا پانچویں نمبر پر سب سے بڑا خود مختار ملک۔ اب ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے یہ وقت اور موقع ہے کہ وہ اپنی قوم کی خدمت کے لیے اپنا مکمل اور بہترین کردار ادا کرے، بڑی سے بڑی قربانی پیش کرے اور قومی خدمت کے لیے مسلسل اور بے لوث کام کرے اور پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کر دے۔‘‘ بانی پاکستان کے انہی فرمودات کی روشنی میں علماء کرام خصوصاً سید مودودیؒ کی فراست اور انتھک جدوجہد کے باعث مملکت کی پہلی اسمبلی نے قرار داد مقاصد کی منظوری دی جس میں مملکت کے راہنما اصولوں کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے قانون سازی کا مآخذ قرار دیا گیا… مگر اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح، جنہوں نے اپنی زندگی میں ان اصولوں پر سختی سے عمل کیا جن کا قوم سے وعدہ کیا تھا اور جن پر عمل کی دیگر اہل اقتدار و اختیار کو بھی تلقین کی تھی۔ مگر افسوس کہ قائد اعظم کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور پھر ملک میں قیام پاکستان کے مقاصد کو یکسر فراموش کر کے ہمارا برسر اقتدار طبقہ باہم ایسی سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہو گیا کہ جس کے نتیجے میں مسلمانان برصغیر کی تمام تمنائوں اور آرزئووں کا خون اور بانی پاکستان کا پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کا خواب بھی ریزہ ریزہ ہو گیا… قیام پاکستان سے قبل کئے گئے وعدوں سے روگردانی اور بانیاں پاکستان کی تمنائوں کا خون کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت دو لخت ہو چکی ہے اور باقی ماندہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کو بھی اپنی بقا و سالمیت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، بے پناہ وسائل اور باصلاحیت نوجوان افرادی قوت رکھنے کے باوجود ہم کشکول اٹھائے در در پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور اپنی خود مختاری گروی رکھ چکے ہیں۔ 23 مارچ۔ یوم پاکستان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنے خالق و مالک سے ماضی کے طرز عمل پر معافی کے طلب گار ہوں اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اسلامی اور خوش حال پاکستان کی خاطر نئے عزم سے بنیاد سحر رکھنے کے لیے تجدید عہد کریں کہ اس میں ہماری فلاح اور بقا کا راز پنہاں ہے…!!!