لب پہ آتی ہے تمنا

354

بہاولپور ہائی کورٹ کے ستم رسیدہ بابا جی نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا تو ہمیں بھی مدعو کیا۔ افطار اور نماز کے بعد بابا جی نے دعا کے لیے ہاتھ اْٹھاتے ہوئے کہا آپ لوگ آمین کہیے۔ اے ربّ العالمین قوم کو جون پور کے قاضیوں سے نجات عطاء فرما یا اْنہیں ایزہ رسانی کے جزام سے نجات عطاء فرما۔ اے خدائے بزرگ و برتر جنہوں نے تیری نیابت کا حلف اْٹھایا ہے اْنہیں شیطانِ مردود کی جان نشینی سے نجات فرما۔ (آمین ثم آمین)
بابا جی کی دعا نے نمازیوں کو حیران کر دیا اْنہوں استفسار کیا کہ بابا جی یہ کیسی دعا ہے؟ بابا جی نے کہا کہ آج میری پیشی تھی اور حسب ِ معمول ایمرجنسی اور ضمانتوں کے بعد ریگولر مقدمات پر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا گیا۔ عرصہ 10 سال سے جسٹس صاحبان بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اس روایت پر عمل پیرا ہیں اْنہیں تو شرم نہیں آتی مگر پیشی کے لیے التجاء کرتے ہوئے مجھے شرم آنے لگی ہے یہ سْن کر نمازی سخت حیران ہوئے اور کہا کہ باباجی مکان تو آپ کے ہیں محکمہ مال اور رجسٹرار آفس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیے۔ سول کورٹ اور سیشن کورٹ نے بھی اسی بنیاد پر خارج کردیے ہیں۔ یہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ہائی کورٹ کو اپیل منظور نہیں کرنا چاہیے تھی کیونکہ با لآخر کسی جسٹس کو اس مقدمے کو خارج کر دینا ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو بابا جی نے کہا۔ مگر اس کے بعد وہ عدالت ِ عظمیٰ چلے جائیں گے اور پھر وہ میری جائداد کے مالک بن جائیں گے کیونکہ میرے مرنے کے بعد کوئی پیروی کرنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے نمازیوں نے کہا۔ بابا جی کہنے لگے آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر موت تو برحق ہے عالم ِ رنگ و بو میں آنے والا ہر شخص موت کی تنگ وتاریک کوٹھری میں جائے گا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جعل ساز آپ کی جائداد کے مالک بن جائیں گے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہی قانون ہے۔
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب ہمارے محلے کے ایک شخص نے قتل کر دیا تھا پولیس نے گرفتار کر لیا مقتول کے بیٹے کی موت کے بعد قاتل کی ضمانت ہوگئی اب قاتل بڑی بے خوفی سے گھومتا پھر رہا ہے کیونکہ مقتول کے بیٹے کے بعد کوئی پیروی کرنے والا نہیں۔ باباجی کے دْکھ کا احسا س ہر شخص کو ہے مگر بہاولپور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان کو نہیں۔ اگر بہاولپور کے ہائی کورٹ کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی بے قصور ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کے جو انبار لگے ہوئے ہیں وہ جلد اور فوری انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جعلی مقدمات اور اْن کی اپیلیں عدالتوں پر بوجھ بن گئی ہیں۔ سو ضروری ہے کہ جعلی مقدمات اور اْن کی اپیلوں پر پابندی لگائی جائے جن جسٹس صاحبان کو ضمانت اور ایمر جنسی مقدمات پیش کیے جاتے ہیں اْن کو ریگو لر مقدمات پیش نہ کیے جائیں کیونکہ جن جسٹس صاحبان کی عدالت میں ریگولر مقدمات ہوں گے وہ اْنہی کی سماعت کرے گا لیفٹ اوور نہیں کرے گا۔ ایمرجنسی اور ضمانت کے مقدمات کی سماعت کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ ریگولر مقدمات کی سماعت کرے کیونکہ ڈبل بین کی سماعت بھی ضروری ہوتی ہے۔
بابا جی کے مقدمے کی طوالت کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جس عدالت میں اْن کا مقدمہ پیش ہوتا ہے وہاں پہلے ہی ایمرجنسی اور ضمانت کے مقدمات کی سماعت ہوتی ہے اور ریگولر مقدمات لیفٹ اوور کر دیے جاتے ہیں۔ مقدمات کی طوالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جعلی مقدمات کی پیروی کرنے والا وکیل مختلف ہیلوں اور بہانوں سے قانونی موشگافیوں سے سماعت نہیں ہونے دیتا اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ بیماری کے بہانے یا دوسری عدالت میں مصروف ہونے کے بہانے سے جسٹس صاحبان تنگ آکر جرمانے کی سزا سنانے لگتے ہیں تو وہ چھٹی کی درخواست دے دیتا ہے۔
یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ چھٹی کی درخواست کی بھی کوئی حد ہونا چاہیے۔ مگر اس کی کوئی حد نہیں اور مقدمہ طول پکڑتا رہتا ہے کیونکہ چھٹی کی درخواست کے باعث مقدمہ لیفٹ اوور ہوجاتا ہے۔ اس معاملے میں ہم نے بعض وکلا سے گفتگو کی تو اْنہوں نے کہا کہ قانونی طور پر تو چھٹی کی درخواست منظور کرنے کے ساتھ 8 سے 10 دن کی پیشی دینا چاہیے۔ مگر جسٹس صاحبان ایسا نہیں کرتے گویا قانون شکنی کی سب سے زیادہ مرتکب عدالتیں ہی ہوتی ہیں۔