عوام منہ ہی دیکھتے رہ گئے

321

عوام توقع کر رہے تھے کہ حکومت پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں کمی کر دے گی تاہم ایسا نہ ہو سکا، حکومت نے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں اگرچہ معمولی سی کمی کی لیکن پٹرول کی قیمت ویسے ہی برقرار رکھی ہے۔ اِس وقت ایک عام آدمی کو کہیں سے کسی قسم کا ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا جس کی وجہ سے وہ مایوسی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے خود تسلیم کیا تھا کہ غریب آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے پس چکا ہے، مٹھی بھر اشرافیہ 90 فی صد وسائل پر قابض ہے، اشرافیہ کو سبسڈی دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، ٹیکس اور بجلی چوری روکنا ہو گی، رمضان المبارک کے دوران اشیاء کی مناسب قیمتوں میں فراہمی اور ان کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے جبکہ غریب عوام کو پیسنے والی مہنگائی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کو کسی قسم کا کوئی ریلیف مل سکا ہے اور نہ ہی آئندہ مالی سال کے اختتام تک ملنے کا کوئی امکان ہے۔

گزشتہ سال اپریل کے دوران افراطِ زر کی شرح 36.4 فی صد تک جا پہنچی تھی جو کہ 2022ء میں ڈیفالٹ ہونے والے سری لنکا سے بھی زیادہ تھی۔ پاکستان میں اپریل 2023ء میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 48 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مئی 2023ء کے بعد سالانہ بنیادوں پر مہنگائی 44.64 فی صد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی تاہم نومبر کے آخری ہفتے کے بعد سے مہنگائی 40 فی صد سے کم تو رہی لیکن 30 فی صد سے کم نہ ہو سکی جس کی وجہ سے عام آدمی شدید پریشان ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ رواں سال مہنگائی میں کمی آ جائے گی۔ اب بھی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ 2025ء کے بعد یہ 10 فی صد سے کم ہو سکتی ہے جبکہ آئندہ چار سے پانچ سال کے دوران یہ قریباً چھے فی صد کے قریب آ سکتی ہے۔

گزشتہ سال کی نسبت مہنگائی میں تھوڑی بہت کمی آنے کے باوجود عام آدمی کی زندگی مزید مشکل اِس لیے بھی ہو گئی ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، دراصل یہ بل ہی عام آدمی کی کمر توڑ رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہونے والے ٹرانسپورٹ کے کرائے میں اضافے، بچوں کے اسکولوں کی بڑھتی فیسیں، مہنگی ادویات اور رہائشی کرایوں میں اضافے نے عام آدمی تو کیا ملک کی امیر ورکنگ کلاس کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، وہ بھی اپنا طرزِ زندگی تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، ملک کی چند فی صد ایلیٹ کے سوا، ہر کوئی پریشان ہے اور ابھی ایک دو سال تک معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی اُمید نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کے ریلیف ملنے کی۔ ابھی تو حکومتیں سیلز ٹیکس، پٹرولیم لیوی، بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے پیسے اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ یہ آسان طریقہ ہے، حکومت کہتی ہے ہو جا، تو ہو جاتا ہے لیکن جہاں حکومت کے کہنے پر بھی نہیں ہو پاتا وہ سیکٹرز آج بھی ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے۔ آئی ایم ایف ریٹیل، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دے رہا ہے تاہم حکومت ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس عائد کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ بہتر ہو گا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مدد سے ایسی طویل مدتی معاشی پالیسی بنائی جائے جس کے تحت تمام شعبوں کو بلا امتیاز ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ وہ تمام لوگ جو ٹیکس ادا نہیں کرتے ان کی بھرپائی دوسروں کو نہ کرنا پڑے۔ ویسے تو ہمارے ہاں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے معمولی سی رقم دے کر اپنا فرض ادا کر دیا جاتا ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مختلف سبسڈی اور رمضان پیکیج ضرور دیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسا نظام بنایا جائے جس میں ملک کی کثیر آبادی کو عزت دار روزگار میسر ہو، وہ بآسانی اپنی زندگی گزار سکے۔