قانون شکنی کا ارتکاب

329

گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کی لائبریری ہال میں فْل کورٹ کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے کی بروقت اور جلد انصاف کی فراہمی سے متعلق غور وغوض کیا گیا اور طے پایا کہ انصاف کی فوری فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمے داری اور فرض اوّلین ہے۔ سو انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی عمل بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاکہ عوام کو پیشی در پیشی کی اذیت سے نجات دی جائے۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔

فْل کورٹ کے اجلاس کے انعقاد کا واضح مقصد یہ ہے کہ عدلیہ بھی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں اْسے علم ہے کہ عوام کو انصاف کے نام پر ذہنی اذیت دی جاتی ہے پیشی در پیشی کے ابلیسی چکر میں پھنسا کر جعل سازوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ کب تک بیانات کے سہارے اپنی کارکردگی پر اظہارِ افسوس کر تی رہے گی؟ حالانکہ اْس کی کارکردگی نے عدلیہ کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وطن کا بچہ بچہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ عدالتیں وکلا کو روزگار فراہم کرنے والا ادارہ بن کر رہ گئی ہیں۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ عدالتیں قانون کے نام پر قانون شکنی کی ساری حدیں عبور کر چکی ہیں مگر احتساب کرنے والا کو ئی نہیں۔ بد نصیبی یہ بھی ہے کہ جسٹس صاحبان وکلا کی کٹھ پْتلی بن کر رہ گئے ہیں جو اْنہیں اپنی انگلیوں پر نچاتے رہتے ہیں۔ وکلا کی ہیرا پھیری اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کے حربوں سے جسٹس صاحبان بھی واقف ہیں اس کے باوجود حقدار کو حق سے محروم رکھنے میں اْن کا ساتھ دیتے ہیں جسٹس صاحبان اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ جعلی مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کبھی نہیں چاہتے کہ انصاف کی فراہمی یقینی بن جائے۔

ایک مقدمے کی سماعت کے دوران مخالف وکیل کے منشی نے بتایا کہ وکیل صاحب دوسری عدالت میں مصروف ہیں فائل انتظار میں رکھ دی جائے مدعا علیہ نے کہا جنابِ والا! مخالف وکیل چار پانچ برسوں سے ایسے ہی بہانوں سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ انصاف آپ کو کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہے وکیل کی مرضی کے مطابق نہیں آپ شہادتیں لینا شروع کر دیں مخالف وکیل آجائے گا۔ جج صاحب نے شہادتوں کا آغاز کیا تو مخالف وکیل بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا آپ میری عدم موجودگی میں شہادتیں نہیں لے سکتے۔ جج صاحب نے کہا کہ آپ چار پانچ سال سے کسی نہ کسی بہانے سے شہادتیں نہیں ہونے دے رہے ہیں مجبوراً مجھے آپ کی عدم موجودگی میں شہادتیں لینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

سائل سول کورٹ اور سیشن کورٹ میں بول سکتا ہے مگر ہائی کورٹ میں نہیں بول سکتا کیونکہ جسٹس صاحبان اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ عدالتوں پر مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ جعلی مقدمات، لیفٹ اوور اور پیشی در پیشی کا ابلیسی چکر ہے حالانکہ عدلیہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ جعلی مقدمات کی سماعت پر پابندی لگا دی جائے تو جعلی وکلا کا لشکر ِ جرار اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔ جعلی مقدمات کی سماعت کرنے والے وکلا پر پیشی سے گریز کرنے پر جرمانے کی سزا کے طور پر کم از کم دس ہزار روپے کی ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے اور وکیل کلائنٹ سے دس ہزار روپے لے کر اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جسٹس صاحبان کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ اس کمزوری سے مستفید ہونے کے لیے وکیل چھٹی کی درخواست بھی دینے لگتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ سال میں کئی بار چھٹی کی درخواست دیتا ہے اور یوں حقدار اپنے حق سے محروم رہتا ہے۔