کنٹونمنٹ بورڈزٹیکس وصولی: سپریم کورٹ کی سندھ کو قانون سازی کیلئے ایک ماہ کی مہلت

237
Cantonment Boards Tax

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ سندھ میں واقع کنٹومنٹس بورڈز کی جانب سے ٹیکس وصولی کے معاملہ پرصوبہ سندھ کو قانون سازی کے لئے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کوہدایت کی ہے کہ وہ سندھ حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کوآئندہ سماعت پر آگاہ کریں۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ آئندہ سماعت تک کنٹونمنٹ بورڈز 1958 کے ایکٹ کے تحت ٹیکس وصول کرسکتے ہیں، اب تک اکٹھا کیا گیا ٹیکس واپس کرنے کے حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع برقرار رہے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوآج قانون سازی سے کوئی نہیں روک رہا، 1958کے ایکٹ کو 2024میں بحال کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔1979میں بریک آئی جو ہمارے لئے مسئلہ بن رہی ہے، 18ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی قانون بناسکتی ہے،ناک کو گھمانا چاہتے ہیں توگھماتے رہیں، ہم آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ سندھ اسمبلی قانون سازی کرے، انتظامی اورقانونی سطح پر سندھ حکومت آسانی سے مسئلہ حل کرسکتی ہے،کیوں ہمیں اتنے مشکل سوال میں ڈال رہے ہیں، یہ ہمارے لئے غیر ضروری مشق ہے۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوفیصلہ کرنے دیں، صوبائی اسمبلی ترمیم کرے یہی سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے۔سپریم کورٹ میں صوبہ سندھ میں واقع کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے وصول ٹیکس کی تقسیم کے معاملے پرجسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میںجسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

وفاق پاکستان کی جانب سے سیکرٹری وزارت دفاع، حکومت پاکستان راولپنڈی ، ایگزیکٹو آفیسر، فیصل کنٹونمنٹ بورڑ کراچی،ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن، ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کورنگی کریک، کراچی، کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مینیجنگ پارٹنر، کراچی اوردیگر کے توسط سے ایم ایس ملینیم مال مینجمنٹ کمپنی ، سبک مجید، اٹارنی کے زریعہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن پاکستان،کراچی،جلیل پیکیجنگ کے خلاف اس کے مینیجنگ پارٹنر، کراچی،مسمات بلقیس خالد، مسز شمع اسلم، گل ناز، رخسانہ ظفر، محمد زکریا،سامبا بینک لمیٹڈ کراچی،ایم ایس البراکا اپاریل، نیشنل بینک آف پاکستان ، کراچی،اسداللہ کھتری، یاسمین چیخ، مسز طاہرہ بی بی،محمد اشرف خان اوردیگر کے خلاف سالانہ کرائے کی مالیت کے حساب سے ٹیکس کے مطالبہ، حکم امتناع جاری کرنے اور فریق بننے کی اجازت دینے کے حوال سے 134درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبرایڈووکیٹ عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے۔ جبکہ فریقین کی جانب سے ایان مصطفی میمن، خواجہ شمس الاسلام ،اصغر علی اوردیگر بطوروکیل پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تا کہ مدعا علیہ ایم ایس ملینیم مال کی جانب سے التوا کی درخواست آئی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے کہ1958 کے پراپرٹی ٹیکس قانون پر 1979 میں ایک صدارتی آرڈر جاری ہوا، آٹھویں ترمیم کے ذریعے 1985 میں ضیاالحق نے اس صدراتی آرڈرکو آئینی تحفظ دیا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 2010 میں18ویں ترمیم میں بھی اس معاملے میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی، کینٹ بورڈز کا ٹیکس وصول کرنا صوبائی نہیں وفاقی معاملہ ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اکٹھے کیئے گئے ٹیکس میں 15فیصد حصہ سندھ حکومت کوجائے گااورباقی 85فیصد حصہ کنٹونمٹس کے پاس رہے گا۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ اس کو صوبائی یاوفاقی قانون کہیںگے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ وفاقی قانون ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جب صدارتی آرڈینس آیا تواس وقت شہری علاقہ میں پراپرٹی ٹیکس لگانے کا اختیارکس کے پاس تھا، فیڈرل لاء کیسے بن گیا تھا۔

سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 1958کے ایکٹ کے تحت کنٹونمٹس ٹیکس وصول کریں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا سابقہ ریلیف برقراررہے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ 270-A(3)کے حوالہ سے جواب دیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔