زندہ والدین کے یتیم بچے

410

ایان اور انابیہ صرف دو بچوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی اس المناک داستان کا عنوان ہے کہ جس میں آئے دن ایسے سانحات ہوتے رہتے ہیں کہ ماں اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی بچے والدین کی شفقت اور انسیت سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور بسا اوقات ان کی حالت یتیموں سے زیادہ قابل رحم ہوتی ہے۔ اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ دنوں کے بعد میاں بیوی کے درمیان اختلافات رونما ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آجاتے ہیں کہ دونوں فریقوں میں علٰیحدگی کے بارے میں سوچ بچار شروع ہوجاتی ہے کہ ان ہی دنوں جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ دونوں میاں بیوی اب ماں باپ بننے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، تو یہ خوشخبری ان کے درمیان اختلافات کو ختم کرکے نئے سرے سے ازدواجی زندگی کی شروعات کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر یہی بچے ماں باپ کو تادیر جوڑے رکھنے اور آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ دونوں اپنی جگہ یہی بات سوچتے ہیں اگر ہم میں علٰیحدگی ہوگئی تو ان بچوں کا کیا بنے گا۔ ہماری عدالتوں میں ایسے المناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے بھی بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں، کہ اگر باپ کے حق میں فیصلہ آگیا کہ بچے باپ کے ساتھ رہیں گے تو بچوں کی جدائی میں ماں کی چیخیں عدالت کے در و دیوار کو ہلا دیتی ہیں اور فیصلہ ماں کے حق میں آیا تو باپ غم زدہ کیفیت میں نظر آتا ہے۔

اس کیس میں یہ ہوا ہے کہ والدین میں طلاق ہوگئی ہے بچوں کی سپردگی کا کیس عدالت میں چل رہا ہے، بچے باپ کے بجائے ماں کے پاس ہیں لیکن ماں بچوں کے پاس نہیں ہے، وہ دبئی میں ملازمت کے سلسلے میں پچھلے نو سال سے ہے اور پچھلے دوسال سے ان کی اپنے بچوں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی وہ کسی وجہ سے نہیں آسکیں ممکن ہے انہوں نے وہاں شادی کرلی ہو اس لیے بچے نانی اور خالہ کے پاس ہیں۔ ادھر باپ نے بھی دوسری شادی کرلی ہے۔ بلا شبہ دونوں کو اپنی شادی کرنے کا قانونی ہی نہیں بلکہ دینی حق بھی ہے۔ لیکن ہم نے اکثر اوقات یہ دیکھا ہے کہ کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ عین جوانی میں بیوہ یا مطلقہ ہوجاتی ہیں ان کے کچھ بچے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کرتیں اور خود بسا اوقات نامساعد معاشی حالات میں بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہیں۔ ایک مطلقہ یا بیوہ عورت بچوں کی خاطر جاب کرتی ہے وہ بچے اگر چھوٹے ہیں تو اپنی بہن یا ماں کے پاس چھوڑ کر جاتی ہے بچے نانی خالہ کے پاس رہتے ہیں شام کو ماں آجاتی ہے پھر وہ سارا وقت بچوں کو دیتی ہے۔ جہاں ماں بالکل سامنے نہ ہو بھلے روز فون پر بات بھی ہوجاتی ہو بچے بہت مس کرتے ہیں وہ اپنے دل کی بات کسی سے نہیں کہہ سکتے۔ ماں جو بچوں کا مان رکھتی ہے بچوں کی بے جا ضدوں کو پورا کرتی ہے یا حکمت سے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہے، ماں جو بچوں کی شرارتیں اور نخرے برداشت کرتی ہے وہ دنیا کا کوئی خون کا رشتہ بھی نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، چچا اور پھوپھو سب خونی رشتے اپنے ناتی نواسے، پوتی پوتوں، بھانجوں بھتیجوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں دل و جان سے چاہتے ہیں لیکن کوئی بھی رشتہ ماں کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اور ماں کا مقام کیا ہے، آپؐ نے اپنی مرحوم ماں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج میری ماں زندہ ہوتیں وہ مجھے کسی کام کے لیے بلاتیں اور میں اگر عشاء کی نماز پڑھ رہا ہوتا تو میں نماز توڑ کر ان کی بات سننے کے لیے جاتا۔

اس کیس یہ جو بات آرہی ہے کہ خالہ خالو اور نانی ان بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتی تھیں انہیں کمرے میں بند کردیتی تھیں ایسا ہو سکتا ہے کہ ہوا ہو۔ بچے بھی تو شرارت کرتے ہیں ان کی اصلاح کے لیے ماں ڈانٹتی ہے ڈپٹتی ہے بری طرح مارتی بھی ہے چھوٹے بچے تو ماں کی مار کھا کر بھی ماں ہی کے دامن سے چمٹ کر روتے ہیں، تھوڑی دیر رو دھو کر خاموش ہوجاتے ہیں لیکن اگر ان کی کسی شرارت یا بد تمیزی پر کوئی دوسرا ڈانٹ دے تو وہ اس ڈانٹ کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ ایک بچے کی اپنے قریبی خونی رشتوں سے محبت کا جو تناسب ماں کے سامنے ہوتے ہوئے ہوتا ہے وہ تناسب ماں کی عدم موجودگی میں نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ بچہ تو ہر وقت ماں کو یاد کرتا رہتا ہے، ہاں اگر خدا نہ خواستہ ماں مر جائے تو قدرتی طور پر کچھ عرصے کے بعد صبر آجاتا ہے نواسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو نانی کی دیوانی ہے۔ میری بھانجی نے جو خود نانی بن چکی ہے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب امی ہم دونوں بہنوں سے یہ کہتیں کہ کل اتوار ہے نانی کے یہاں چلیں گے، تو خوشی کے مارے ہمیں پوری رات نیند نہیں آتی تھی۔ اسی طرح پوتی پوتوں کے حوالے سے بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت مشہور ہے کہ اصل سے پیارا سود ہوتا ہے۔ اکثر تو لوگ پوتوں کے لیے اپنے وہ اصول بھی توڑ دیتے ہیں جو انہوں نے بیٹوں کے لیے بنایا ہوا تھا۔ مثلاً باپ گھر آکر کمرے میں آرام کررہے ہیں یا سو گئے کسی بچے کی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ کمرے میں چلا جائے یا قریب میں کوئی شور شرابا ہو والدہ خود بچوں کو وارننگ دیتیں کہ خاموش ہو جائو اگر وہ اٹھ گئے کسی کی پٹائی ہو جائے تو میں نہیں جانتی لیکن وہی باپ جب دادا بن جاتے ہیں پوتے صاحب آتے ہیں چادر کھینچتے ہیں اور اپنی خرچی مانگتے ہیں دادا پہلے تو اس کو دیکھ کر مسکراتے ہیں پھر لیٹے لیٹے پوتے کو گود میں لے کر سینے سے لگاتے ہیں پیار کرتے ہیں اور پھر پیسے دیتے ہیں پوتا چلا جاتا ہے دادا پھر چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں ایک ہی حرکت ہے اگر بیٹا کرے تو غصہ آئے اور پوتا کرے تو پیار آئے۔ ان سب کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ ماں کی محبت جن بلندیوں پر ہے اس کا ہم اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ ایک محفل میں بچہ کھڑا ہوا اور ماں کے منہ پر پیشاب کرنا شروع کردیا ماں نے بچے کو روکا نہ اپنا منہ ہٹایا کسی نے بعد میں کہا آپ نے منہ کیوں نہیں ہٹایا ماں نے جواب دیا پھر وہ پیشاب روک لیتا۔ مامتا کی یہی تو نزاکتیں ہیں، یہ بھی مامتا ہی کی تڑپ تھی کہ دیار غیر میں رہنے والی ماں کو جب معلوم ہوا کہ اس کے بچے برگر لینے نکلے تھے واپس نہیں آئے، اس نے فوراً اغوا اور گمشدگی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل کردی ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے یہ خوف ہو کہ کہیں سابقہ باپ نے تو بچوں کو اغوا نہیں کرادیا۔

اب اگر فیصلہ باپ کے حق میں ہوتا ہے تو کیا دوسری بیوی بچوں کو قبول کرلے گی۔ ایک صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ان کا ایک چھوٹا بچہ تھا ان صاحب نے دوسری شادی کرلی کچھ عرصے بعد باپ نے بیٹے سے پوچھا کہ بیٹا کہ تمہاری یہ نئی ماما کیسی ہیں بیٹے نے کہا کہ یہ والی ماما اچھی اور سچی ہے اور پہلے والی ماما جھوٹی تھی باپ نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے بچے نے جواب دیا پہلے والی ماما میرے شرارت کرنے پر کہتی تھی آج میں تمہیں رات کا کھانا نہیں دوں گی لیکن پھر وہ رات مجھے اٹھا کر کھانا کھلا دیتی تھی یہ والی ماں اس لیے سچی ہے کہ یہ جب کہتی ہے کہ آج میں تمہیں کھانا نہیں دوں گی تو یہ پھر نہیں دیتی اور میں بھوکا ہی سو جاتا ہوں۔ اب اگر فیصلہ ماں کے حق میں آتا ہے تو کیا اس کا موجودہ شوہر بھی اس فیصلے کو قبول کرلے گا۔ گورنر سندھ نے بچوں کی پرورش کا ذمہ اٹھانے کا اعلان کیا لیکن بچے اپنی دوسری خالہ کے پاس جانے پر تیار تھے اس لیے مجسٹریٹ نے کچھ قانونی پابندیوں کے ساتھ بچوں کو خالہ کی کسٹڈی میں دے دیا ڈاکٹر عاصم نے اپنے اسکول میں میٹرک تک فری تعلیم دینے کا اعلان کیا یہ ایک اچھی روایت ہے لیکن ہمارے سنجیدہ ذہنوں کو سوچنا ہوگا کہ ایسے ہولناک سلگتے معاشرتی مسائل کے اسباب اور پھر اس کا حل کیا ہے۔