آدھا انصاف

356

شیخ رشید مسلک ِ عمرانیہ سے وابستہ ہوئے تو اْنہیں ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دینے لگا تھا۔ حتیٰ کہ دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہتی دکھائی دینے لگی تھیں۔ اْن کی خواہش تھی کہ پاکستان کو عمرانستان کہا جائے اْن کی نظر میں عمران خان کا وجود پاکستان کے لیے لازم و ملزوم تھا۔ کہا کرتے تھے عمران خان کو اگر گرفتار کیا گیا تو قوم سٹرکوں پر آجائے گی سول نا فرمانی کا ایسا طوفان آئے گا کہ سب کچھ بہہ جائے گا۔ سمجھانے والوں نے بہت سمجھایا کہ عمران خان کی مقبولیت چائے کی پیالی کے طوفان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بھٹو مرحوم سے زیادہ مقبول کوئی نہیں مگر جب قانون فعال ہوا تو سب ہی مفعول بن گئے۔
میاں نوازشریف کو نماز شریف کہنے والوں کی کمی نہیں تھی مگر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سیاست دانوں کے لیے عبرت بن گیا اب جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی عبرت بن جائے گا اس کے باوجود سیاست کے کھلاڑی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جو ہاتھ پکڑ کر لاتا ہے وہ کان پکڑ کر نکال بھی سکتا ہے اور ہماری سیاست میں اب تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ مگر سیاستدان اور مقتدر شخصیات کی چال چلن میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
مشاہدہ یہی ہے کہ سیاستدانوں کے مقدمات کا فیصلہ ترجیحی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقدمے میں سزائے موت دی گئی تھی جسے پیپلز پارٹی عدالتی قتل کہتی رہی۔ آصف علی زرداری جب پہلی بار صدرِ مملکت منتخب ہوئے تو اْنہوں نے مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دی جس کا فیصلہ چند سال نے بعد سْنایا گیا اور یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کو قانونی سقم قرار دے دیا ہے جسے انصاف کی سر بلندی قرار دیا جارہا ہے۔ مگر زمینی حقائق کے مطابق یہ انصاف کا بول بالا نہیں کیونکہ آدھے سچ کی طرح آدھا انصاف بھی بہت خطرناک ہوتا ہے جو لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ منصف بھی دباؤ میں آکر فیصلے کرتے ہیں۔
ہمارا قومی المیہ یہ ہی ہے کہ پریشر گروپ بہت طاقتور ہے جو ریاست کے اندر ریاست بننے کے گْر جانتا ہے۔ وطن ِ عزیز کی عدلیہ کے بارے میں عوام جو کہتے ہیں وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ آئے دن بے گناہ قتل گاہوں کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر اْن کی بے گناہی کے ماتم تو کْجا احتجاج بھی نہیں کیا جاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرمِ بے گناہی میں موت کی گھاٹ اْترنے والوں کو کب انصاف دیا جائے گا۔ آئے دن ایسے مقدمات کی بازگشت گلی کوچوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے جنہیں قانونی سقم کی بدترین مثال کہا جاتا ہے۔ ہر شہر میں ایسے مرد مل جائیں گے جن کی عورتوں نے اْن کے گھر میں بیٹھ کر عدالت سے خْلع لیا اور اْسی گھر میں دوسری شادی کر لی۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم شیخ رشید کی بات کر رہے تھے موصوف نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے دھوکہ دیا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ موصوف نے میاں نواز شریف کو دھوکہ دیا تھا جس کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں اور اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک زندہ ہیں سزابھگتتے رہیں گے۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ جب تک وہ مسلم لیگ نواز میں شامل رہے مقبول ترین سیاست دان تھے۔ مگر المیہ یہ واقع ہوا کہ شیخ جی اس قبولیت کو اپنی مقبولیت سمجھتے رہے ہیں حالانکہ اْن کی مقبولیت میاں نواز شریف کی مقبولیت سے مشروط تھی جونہی اْنہوں نے مسلم لیگ نواز سے منہ موڑا مقبولیت نے اْن سے منہ موڑ لیا۔ نہ خدا ملا نہ وصالِ صنم۔
حالانکہ عمر کے جس حصے میں شیخ جی کھڑے ہیں وہاں خْدا تو مل جاتا ہے وصالِ صنم نہیں ملتا۔ کیونکہ وصال کے گلاب اپنی خوشبو کھو دیتے ہیں پلاسٹک کے پھولوں کی طرح بے مہک ہوجاتے ہیں۔ شیخ جی سمجھ گئے ہوں گے کہ چڑھتے سورج کی پْوجا ایک ایسی روایت ہے جسے کوئی روایت شکن توڑنا پسند نہیں کرتا موصوف سیاست سے آؤٹ ہوئے تو الیکٹرونک میڈیا سے بھی آؤٹ ہوگئے۔