تعلیمی اداروں کی خستہ حالی

339

امیرجماعت محترم سراج الحق کا یہ کہنا برحق ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے لائبریریاں اور کھیل کے میدان انتہائی اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز کا مقتدر طبقہ اسے اہمیت ہی نہیں دیتا اس عدم دلچسپی کے نتیجے میں لائبریریاں اور کھیل کے میدان ویران ہوتے جارہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کی فیس حصولِ تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے جامعات مقروض ہیں تعلیمی ادارے خسارے کے باعث اساتذہ کو تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارا نوجوان طبقہ بہت باصلاحیت اور ذہین ہے مگر ناقدری کے باعث بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہے۔
امیر ِ جماعت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں باوقار مقام دلانے کے لیے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ دنیا میں وہ ہی قومیں خوشحال اور باوقار ہوتی ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں۔ جماعت ِ اسلامی کو موقع ملا تو تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا پانچ فی صد حصہ مقرر کرے گی۔ تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی فیس میں کمی کرے گی۔ یکساں نظامِ تعلیم دیا جائے گا اور ہر شہری کو تعلیم کے مواقع فراہم کرے گی کیونکہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کا نظامِ تعلیم یکساں ہو۔ ایڈوانس ایجوکیشن کو فروغ دے کر پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
اگر دیانتداری سے جامعات کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ مالی مشکلات کا سبب جامعات کے کرتا دھرتا افراد کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ ان دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بھی مالی مشکلات سے دوچارہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اْس کا نصب العین تخت لاہور کی خوشنودی ہے کچھ عرصہ قبل ایک تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں بہاولپور کے شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی تھی۔ اس پزیرائی میں ہماری کتاب پس ِ آئینہ بھی شامل تھی ہماری کتاب پر ڈاکٹر ذیشان اطہر نے مضمون پڑھا۔ ہم سے اپنی ادبی خدمات کے حوالے سے مختصر تعارف کرانے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے اپنے تقریر میں بتایا کہ ادب اور صحافت کی خدمت کرتے ہوئے ہمیں نصف صدی گزر چکی ہے مگر اس تقریب میں موجود بہت سے افراد نے ہمارا نام بھی نہیں سْنا ہوگا کیونکہ بڑے شہروں کے ادیب اور ناقد جب چھوٹے شہر کے کسی ادیب یا شاعر کا نام لیتے ہیں تو اْن کی زبان پر چھالے اْگ آتے ہیں۔
کتابوں کی تقریب رونمائی کے بعد محفل ِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تخت ِ لاہور کو خوش آمدید کہا گیا لاہور کے ایسے شاعروں کو بھی 50، 50 ہزار روپے سے نوازا گیا جنہیں مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا اور بہاولپور کے شاعروں کو پانچ پانچ ہزار روپے دیے گئے۔ بہاولپور کے نامور شاعر اور سیاست دان تابش الوری ادبی تقریب ’’پڑاؤ‘‘ میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ہم نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کا رویہ بہاولپور کے شاعروں کے لیے باعث ِ ندامت ہے مگر بڑی حد تک اس کے ذمے دار بہاولپور کے شاعر بھی ہیں اسلامیہ یونیورسٹی نے بہاولپور کے شاعروں کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اْنہیں مشاعرے میں مدعو کیا جاتا۔ مگر اْنہوں نے احتجاج کرنے کے بجائے سفارش کا سہارا لیا کسی کی سفارش تابش الوری نے کی کسی کی سفارش کمشنر نے کی اور کسی کی سفارش لاہور کی کسی شاعر سے کرائی گئی۔ اس واقعے کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے مالی خسارے کی اصل وجہ اْس کی فضول خرچی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے ہیں اور نہ پنشن یافتہ افراد کو پنشن کی ادائیگی کے لیے پیسے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فضول خرچی کی سزا ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کو کیوں دی جارہی ہے؟ احتساب ہونا چاہیے کہ یہ فضول خرچی کیوں کی گئی حالانکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں کیونکہ ملازمت کے لیے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں تو درخواست دینے والوں سے لاکھوں روپے درخواست فیس کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں مگر اکثر اوقات درخواست گزار کو انٹرویو کے لیے طلب ہی نہیں کیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ درخواست فیس کی رقم کہاں جاتی ہے؟
سینٹرل لائبریری بہاولپور کا نام صادق ریڈنگ لائبریری ہے ایک مدت سے کوشش کی جارہی ہے کہ اس کا اصل نام لکھا جائے مگر کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں۔ افسوسنا ک صورتحال یہ بھی ہے کہ لائبریر ی کا انچارچ کتاب جاری کرنے سے انکار کر دیتا ہے حالانکہ کتاب موجود ہوتی ہے۔
قائد اعظم اکیڈمی کا یہ حال ہے کہ کل وقتی ڈائریکٹر ہے اور نہ آسامیاں مکمل ہیں۔ لائبریری موجود ہے مگر نئی کتب خریدنے کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے تحقیقی و تصنیفی امور پر کوئی کام بھی نہیں ہورہا ہے جب بابائے قوم سے منسوب ادارے کا یہ حال ہے تو دیگر تعلیمی ادروں کی خستہ حالی کیا ہوگی؟