بجلی صارفین سے اربوں روپے کی ناجائز وصولیاں

298

خیبر پختون خوا میں شہریوں کو سوئی گیس کے بعد بجلی کے بھاری بل موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وزارت توانائی اور نیپرا کے ذرائع کے مطابق جنوری کے بجلی بلوں میں دسمبر کے مہینے کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے پیسے ڈالے گئے ہیں دستاویزات کے مطابق جنوری کے مہینے میں پانی کے ذرائع سے 10592 میگاواٹ بجلی حاصل کی گئی جبکہ ایندھن سے نجی پیداواری یونٹوں سے 7297 میگاواٹ بجلی حاصل کی گئی ہائیڈل ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر فیول یا ایندھن کی کوئی لاگت نہیں آئی جبکہ نجی ذرائع سے بجلی بنانے پر ایک کھرب 12 ارب 29 کروڑ سے زائد کے اخراجات آئے جو صارفین کے بجلی بلوں میں ڈال دیے گئے جس سے صارفین کے بجلی بلوں میں ایک لاکھ روپے تک کا اضافہ ہو گیا۔ صارفین بجلی کو بھاری بل موصول ہونے پر لوگوں کا پریشان اور مشتعل ہونا قدرتی امر ہے کیونکہ یہاں ایسا ماحول بن چکا ہے کہ صارفین پر مسلسل بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ابھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف عوام کی چیخ پکار جاری تھی اور بھاری بلوں سے عوام کی پریشانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ عوام کو بجلی کے بھاری بل بھیج دیے گئے۔ کم سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بل بھی کئی کئی ہزار روپے ہیں۔

ہماری یہ سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ برسر اقتدار طبقے نے کبھی بھی عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا اور نہ عوام کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس وقت ملک میں پانی اور تیل سے بجلی پیدا کی جارہی ہے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کم ہے لیکن اس کے باوجود فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے نام پر عوام سے بھتا وصول کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جب اقتدار سے باہر تھے تو انہوں نے خود فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کی مخالفت کی تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اب وزیراعظم کو عوام کے بہترین مفاد میں فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے نام پر ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ ختم کرانا چاہیے جبکہ بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان صارفین کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں تا کہ کم آمدن والے طبقے کی پریشانی ختم ہوسکے۔

عوام کا المیہ یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں وہ اس طرح سے بے دست و پا ہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مزید لوٹ مار کرنے اور ان کی جیب کاٹنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کی خاطر پٹرول اور بجلی کو ہدف بنارکھا ہے، پٹرول اپنی قیمت سے کم از کم بھی نصف دو گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہورہا ہے، بجلی اور گیس پر کتنی قسم کے ٹیکس ہیں، انہیں شمار کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود ڈسکوز نے غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور نا جائز طور پر اضافہ بل وصول کیے، جسے دھوکہ اور فراڈ کے سوا کوئی دوسرا نام دینا ممکن نہیں۔ جرم نیپرا کی تحقیقات میں ثابت ہو چکا ہے، اب صرف تحقیقاتی رپورٹ شائع کر دینا کوئی سزا نہیں ہے، لازم ہے کہ پہلے مرحلہ میں فوری طور پر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیا جائے، اور حکومت اس مجرمانہ حرکت کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج کرکے، گرفتار کیا جائے۔ حکومت اگر کوئی ایکشن نہیں لیتی تو لازم ہے کہ عدالت عظمیٰ از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرے تاکہ ان مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے۔

ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کو سالانہ 10 ارب روپے کی مفت بجلی فراہم ہوتی ہے۔ غریب لا چار مفلس اور دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے دردر ٹھوکریں کھانے والی عوام کے ساتھ یہ بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ ماہانہ بیس پچیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے افراد پر تو بھاری ٹیکس ڈال کر ان سے بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جاری ہیں جبکہ بیورو کریسی کو دس ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی کی سہولت میسر ہے، بھاری سودی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے ساتھ یہ صریحاً زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ مملکت خداداد میں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سر پر تو ذخیرہ اندوزوں، بلیک میلروں اور کالی بھیڑوں کو مسلط کردیا گیا ہے جبکہ ملک کے ایک خاص طبقہ نے سہولتیں اور مراعات کو صرف اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ یہ کیسا دوہرا نظام ہے۔ خدارا پاکستان اور اس کے غریب عوام پر رحم کھایا جائے اور اشرافیہ کی مراعات مفت بجلی کی سہولت کو فوری ختم کیا جائے، عوام پہلے ہی حکمرانوں سے نالاں ہے، اسے مزید بر انگیختہ نہ کیا جائے۔