اختلاف! اختلاف

355

وطن ِ عزیز کے معاشی اور سیاسی بحران کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف حزبِ اقتدار پر تنقید کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ اپوزیشن کی سوچ افسوس ناک حد تک قابل ِ مذمت ہے کوئی بھی پارٹی حزبِ اختلاف میں ہو اختلاف اپنا منصب سمجھ لیتی ہے۔ حالانکہ حزبِ اختلاف کا منصب حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ریلیف فراہم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ حکومت قائم ہوئے جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئے ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ عوام کو ریلیف بھی نہیں دے سکے گی۔

تحریک ِ انصاف اور اْس کے حامیوں کا دعویٰ تھا کہ عوام کے منڈیٹ کے مطابق حکومت سازی کا حق پی ٹی آئی کو ہے۔ مگر جب وزیر ِ اعظم کے انتخاب کا وقت آیا تو تحریک ِ انصاف صرف 92 ووٹ حاصل کر سکی اب کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ کو وزارتِ عظمیٰ اتحادیوں کے طفیل ملی ہے۔ عوام بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تحریک ِ انصاف کا اْمید وار وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب سنی اتحاد کونسل کے بغیر نہیں لڑ سکتا تھا۔ سو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ میاں شہباز شریف اور عمر ایوب دونوں ہی اتحادیوں کے نظر ِ کرم کے بغیر وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب نہیں لڑ سکتے تھے۔

کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت کے پیراہن میں ملبوس دکھائی دیتا ہے کہ تحریک ِ انصاف کا منشور ہی عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد بھی اْس نے یہی کیا۔ اْن آزاد اْمیدواروں کو بھی اپنا کہنا شروع کردیا جو اْن کے حمایت یافتہ نہیں تھے۔ مگر وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب ہوا تو عوام یہ جان کر حیران رہ گئے کہ تحریک ِ انصاف سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرنے کے بعد بھی صرف 92 رکن ِ قومی اسمبلی پیش کرسکی۔

گزرے زمانے میں کسی قوم کو تابع فرمان بنانے کے لیے توپ و تفنگ کا استعمال کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں کسی قوم کو محکوم بنانے کے لیے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے برین واشنگ کی جاتی ہے۔ تحریک ِ انصاف نے بھی برین واشنگ کی مگر اْس کے دانشور یہ نہ سمجھ سکے کہ برین واشنگ دائمی عمل نہیں ہوتا اْسے واش بھی کیا جا سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف حکومتی عمل میں شامل ہورہی ہے یہ قابلِ تحسین عمل ہے جو ایک اچھی بات ہے مگر بْری بات یہ ہے کہ وہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتی۔

اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن نے ساری حدیں ہی پار کر لیں۔ موصوف نے پارلیمان سے انکار کر دیا ہے اْنہوں نے وزیر ِ اعظم کے لیے ووٹ نہیں دیا اور صدرِ مملکت کے لیے بھی ووٹ نہیں دیا۔ اْن کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی پارلیمنٹ میں نہیں سڑکوں پر ہوگی حالانکہ وہ بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ مکالمہ فیصلہ سازی میں اہم کردار کا حامل ہوتا ہے۔ مکالمہ دم توڑ دے تو سڑکوں پر خون بہنے لگتا ہے۔ اب یہ سوچنا فیصلہ ساز قوتوں کا کام ہے کہ خونیں انقلاب کا راستہ کیسے روکا جائے؟ کیونکہ مولانا فضل الرحمن اقتدار سے محرومی برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر مولانا فضل الرحمن سڑکوں پر آگئے تو خون خرابہ ہوگا جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت تباہ ہوجائے گی جو ملک کی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔