مَلائک حصہ دوم

344

گزشتہ کالم میں ہم نے ملائک کے بارے میں اسلامی عقیدے کی وضاحت کی ہے اور قرآنِ کریم میں اُن کے جو مختلف نام اور اُن کے ذمے مختلف کام ہیں، اُن کی وضاحت کی ہے کہ ملائک ایک مستقل بالذات مخلوق ہیں اور انہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن متجدّدین اور مبتدعین نے ملائکہ کے ایک الگ نوعِ مخلوق ہونے اور حقیقی وجود سے انکار کیا ہے، چنانچہ انہوں نے ملائکہ کو خیر کی قوتوں اور ابلیس کو شر کی قوتوں سے تعبیر کیا ہے، وہ ابلیس کا بھی کوئی الگ مستقل بالذات وجود نہیں مانتے، غلام احمد پرویز لکھتے ہیں: ’’اس میں نزولِ ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی تغیّر ہے جو خدا کی ربوبیت پر یقینِ مُحکم سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے، اس کے برعکس جو قوتیں انسان کے دل میں خوف وہراس وناامیدی پیدا کرتی ہیں، خواہ وہ خارجی قوتیں ہوں یا خود انسان کی داخلی قوتیں، انہیں ابلیس اور شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘، (لغات القرآن) مزید لکھتے ہیں:

’’شیخ محمد عبدہٗ کے شاگرد محمد رشید بن علی رضا تفسیر ’المنار‘ میں لکھتے ہیں: ’’یہ امر ثابت ہے کہ کائنات کی ہر شے کے اندر ایک قوت ایسی ہے جس پر اس چیز کا مَدار ہے اور جس کے ساتھ اس شے کا قِوام ونظام قائم ہے، جو لوگ وحی پر ایمان نہیں رکھتے، وہ ان قوتوں کو طبیعی قوتیںکہتے ہیں، شریعت کی زبان میں انہیں ملائکہ کہاگیا ہے، لیکن انہیں ملائکہ کہیے یا کائناتی قوتیں، حقیقت ایک ہی ہے اور عقل مند آدمی وہ ہے، جس کے لیے ’’رکھے ہوئے نام‘‘ اصل مُسَمَّیات سے حجاب نہ بن جائیں‘‘، نیز وہ لکھتے ہیں: ’’جو اسباب خیر کی طرف داعی ہیں، انہیں ’مَلَک‘ کہا گیا ہے اور جو شر کی طرف داعی ہیں، انہیں ’شیطان‘ کہا گیا ہے اور قلب کی وہ لطیف کیفیات جن کے سبب وہ خیر کے الہام کو قبول کرتا ہے، اسے ’ توفیق‘ کہتے ہیں اور جو شر کے الہام کو قبول کرتا ہے، اُسے’ اِغوا اور خِذلان (گمراہ کرنا اور رسوا کرنا)‘ کہتے ہیں، کیونکہ مختلف معانی کو مختلف نام دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ (تفسیر المنار) مزید لکھتے ہیں:

’’قرآنِ کریم نے ملائکہ پر ایمان کو ’’اجزائے ایمان‘‘ میں سے قرار دیا ہے، یعنی ایک شخص کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ، کتب، رسل، آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ ملائکہ پر بھی ایمان لائے، سوال یہ ہے: ملائکہ پر ایمان کے معنی کیا ہیں: اس کے معنی ہیں: ملائکہ کے متعلق وہ تصور رکھا جائے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور انہیں وہی پوزیشن دی جائے جو قرآن نے ان کے لیے متعین کی ہے۔ ملائکہ کے متعلق قرآن میں ہے کہ انہوں نے آدم کو سجدہ کیا، یعنی وہ آدم کے سامنے جھک گئے، جیسا کہ آدم کے عنوان میں بتایا جاچکا ہے، آدم سے مراد خود آدمی (یا نوع انسان) ہے، لہٰذا ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ یہ قوتیں وہ ہیں جنہیں انسان اپنے تابع کرسکتا ہے، انہیں انسان کے سامنے جھکا ہوا رہنا چاہیے، کائنات کی جو قوتیں ابھی تک ہمارے علم میں نہیں آئیں، انہیں چھوڑیے، جو قوتیں ہمارے علم میں آچکی ہیں، ان کے متعلق صحیح ایمان یہ ہوگا کہ ان سب کو انسان کے سامنے جھکنا چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ جس قوم کے سامنے کائناتی قوتیں نہیں جھکتیں، وہ قوم قرآن کی رو سے صفِ آدمیت میں شمار ہونے کے بھی قابل نہیں، چہ جائیکہ اسے جماعت مومنین کہا جائے، کیونکہ مومن کا مقام، عام آدمیوں کے مقام سے کہیں اونچا ہے‘‘۔ (لغات القرآن) مزید لکھتے ہیں: ’’ان وحشی اور سرکش قبائل کے لوگوں کو بھی، جنہیں سیدنا سلیمان نے اطاعت گزار بناکر کام میں لگا رکھا تھا، شیطان کہا گیا ہے‘‘۔ (لغات القرآن)

سرسید احمد خان لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید سے فِرشتوں کا ایسا وجود، جیسا کہ مسلمانوں نے اعتقاد کر رکھا ہے، ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برخلاف پایا جاتا ہے۔ جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے، ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا، بلکہ خدا کی بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قوتوںکو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کی پیدا کی ہیں، مَلَک یا ملائکہ کہا ہے، جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے۔ پہاڑوں کی صلابت، پانی کی رِقّت، درختوں کی قوتِ نُمُوّ، برق کی قوتِ جذب ودفع، غرضکہ تمام قوتیں جن سے مخلوقات موجود ہوئی ہیں اور جو مخلوقات میں ہیں، وہی ملائک وملائکہ ہیں، جن کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ انسان ملکوتی بہیمی قوتوں کا مجموعہ ہے اور ان دونوں قوتوں کی بے انتہا ذریّات (اولاد) ہیں، جو ہر قسم کی نیکی وبدی میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہی انسان کے فرشتے اور ان کی ذرّیّات اور وہی انسان کے شیطان اور اس کی ذرّیّات ہیں‘‘۔ (تفسیر القرآن وھوالھدیٰ والفرقان)

الغرض محمد رشید بن علی رضا، سرسید احمد خاں اور غلام احمد پرویز ملائکہ کو ایک مستقل بالذات مخلوق ماننے سے انکاری ہیں، جبکہ جمہور علمائے امت کا متفقہ اور مسلّمہ عقیدہ ہے کہ ملائکہ ایک مستقل مخلوق ہیں، یہ محض اعتباری داخلی اور خارجی قوتیں نہیں ہیں۔ نیز قرآنِ کریم تواتر کے ساتھ ملائکہ کا ذکر فرماتا ہے اور اُن کے ذمے جو مختلف ذمے داریاں ہیں، ان کو بیان فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ماضی کی سرکش امتوں پر عذاب بھی انھی فرشتوں کے ذریعے نازل فرمایا ہے، ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ابراہیم نے کہا: اے فرشتو! تمہیں کون سی مہم درپیش ہے، فرشتوں نے کہا: بے شک ہم مجرموں کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں جو آپ کے ربّ کے نزدیک حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے نشان زدہ (Guided) ہیں‘‘۔ (الذاریات: 31-33)

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ کہیے: مَلَک الموت جسے تم پر مقرر کیا گیا ہے، وہ تم سب کی روح قبض کرتا ہے‘‘۔ (السجدہ: 11) اس آیت میں یہ تصریح ہے: حضرت عزرائیلؑ سب لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ محض کوئی علامتی قوت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نورانی مخلوق ہے جو اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے تصرف کرتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آسمانوں اور زمینوں میں جتنے بھی جاندار اور فرشتے ہیں وہ (سب) اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے، وہ اپنے اوپر آنے والے اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ (النحل: 5) اس آیت سے بھی ظاہر ہوگیا کہ فرشتے محض اعتباری قوتیں نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نورانی مخلوق ہے جو ذی علم ہے، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتی ہے اور اس کا ہر حکم بجالاتی ہے۔ ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں عار نہیں سمجھتے یا تکبر نہیں کرتے اور وہ اس کی عبادت سے تھکتے نہیں اور تسبیح کرنے میں سستی نہیں کرتے، ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدح فرمائی ہے: وہ نہ تکبر کرتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، نہ سستی کرتے ہیں اور کسی فعل کی نفی اس وقت باعثِ مدح اور کمال ہوتی ہے جب اس کا ثبوت ممکن ہو۔

احادیث مبارکہ میں ہے: (۱) ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا اور جنات کو خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا‘‘، (مسلم) (۲) ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس ایک دوسرے کے آگے پیچھے آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوجاتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر چلے جاتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے، فرماتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، فرشتے عرض کرتے ہیں: جب ہم نے ان کو چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ (بخاری)

ان آیات واحادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا: فرشتوں کے یہ تمام کام اور ان کے تصرفات اور بندوں کے نیک اور برے اعمال کے متعلق ان کا علم اور ’کراماً کاتبین‘ کا نامۂ اعمال لکھنا، یہ صرف قوتیں نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت اور اس کے اِذن سے کائنات میں تدبیر اور تصرف کرتے ہیں، پس جو شخص قرآنِ کریم اور احادیث کو مانتا ہے، وہ فرشتوں کے حقیقی وجود کا کبھی انکار نہیں کرے گا۔