اب تو نبھانا ہی پڑے گا

434

آج کل شادیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک کہلاتی ہے ارینج میرج اور دوسری لو میرج۔ پہلی قسم میں ماں باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ خود طے کرتے ہیں۔ اگر بیٹی ہے تو اس کے کئی رشتے آتے ہیں والدین اس میں سے کسی ایک کو جواب دینے سے پہلے بالواسطہ طریقے سے بیٹی کی رائے بھی معلوم کرلیتے ہیں، عام طور سے تو جواب مثبت ہی ملتا ہے۔ اگر کہیں سے منفی تاثر ملتا ہے تو پھر ماں باپ سمجھ جاتے ہیں کہ لڑکی نے شاید کسی اور کو پسند کیا ہوا ہے۔ اس مرحلے پر والدین کی دو رویے سامنے آتے ہیں ایک تو سخت دوسرا نرم اور مصالحت والا پھر دونوں رویوں کے الگ الگ نتائج سامنے آتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں اب سے تیس چالیس سال قبل تو والدین کی اکثریت سخت رویہ اختیار کرتی تھی لیکن اب نرمی اور مصالحت والا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کے معاملے میں والدین بالخصوص والدہ صاحبہ خاندان کی کئی بچیوں کو دیکھ پرکھ کر کسی ایک کے بارے میں بیٹے کو بتاتی ہیں بیٹا یہی کہتا ہے امی جیسے آپ کی مرضی دوسری صورت میں بیٹا اپنی پسند بتاتا ہے تو پھر والدین یہ پوچھتے ہیں اگر ہم وہاں رشتہ لے کر جائیں تو وہ لوگ انکار تو نہ کردیں، لڑکا کہتا ہے نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ جائیے ان شاء اللہ آپ کو محبت احترام ملے گا۔ پھر بات بن جاتی ہے اور شادی ہو جاتی ہے۔

ہمارے رشتے داروں میں ایک لڑکا انجینئرنگ یونیورسٹی میں تھا کلاس کے طلبہ و طالبات کا ایک ٹور کا پروگرام بنا سب اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں کا طے ہوا تھا وہاں سے کچھ شرکاء کا کسی اور جگہ جا کر گھومنے کا پروگرام بنا کچھ تیار ہوگئے کچھ نے کہا ہم ادھر ہی گپ شپ کررہے ہیں آپ لوگ ہو آئیں لڑکے بس پر چڑھ گئے اور پھر لڑکیوں کو اوپر ایک لڑکا ہاتھ پکڑ کر بس پرچڑھا رہا تھا۔ ایک طالبہ واپس آگئی اس لڑکے نے پوچھا آپ کیوں نہیں گئیں لڑکی نے کہا مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ لڑکے ہاتھ پکڑ کر چڑھا رہے تھے اور ویسے بھی وہاں جانا ضروری بھی نہیں لڑکے کو یہ بات پسند آگئی اس نے سوچا اب میں زندگی بھر کے لیے اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں اسی ٹور کے دوران اس لڑکے نے اپنی ایک کلاس فیلو کے ذریعے یہ معلوم کرایا کہ اس لڑکی کا پہلے سے کہیں رشتہ تو طے نہیں ہے معلوم ہوا کہ نہیں ایسا نہیں ہے پھر اسی ذریعے سے اپنی پسند پہنچائی لڑکی نے کہا ٹھیک ہے اپنے والدین کو گھر بھیج دیں یہ سب اس لیے کیا گیا کہ لڑکا مہاجر اور لڑکی سرائیکی تھی زبان کے ساتھ تمدن روایات اور کلچر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ لڑکے نے اپنے والدین کو اس لڑکی کے گھر بھیجا پھر لڑکی کے والدین آئے رشتہ طے ہوگیا یہ فیصلہ ہوا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد شادی ہو جائے گی اور وہ ہوگئی اب دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔

ایک اور واقعہ سن لیں ہمارے محلے میں ایک شریف النفس حافظ قرآن لڑکا تھا اس کی موبائل شاپ تھی سامنے والی بلڈنگ میں ایک لڑکی سے محبت ہوگئی اس نے اپنے والدین سے ذکر کیا وہ اس کا رشتہ لے کر لڑکی کے گھر گئے لڑکی کی ماں تو کچھ تیار تھیں لیکن والد نے سختی سے انکار کردیا اور سنا ہے لڑکی پر کچھ تشدد بھی کیا۔ اگر باپ نے ضد اختیار کی تو لڑکی بھی اسی ضدی باپ کی بیٹی تھی جو اپنے باپ سے زیادہ ضدی نکلی ایک دن رات کو وہ گھر سے نکل کر کسی جگہ پہنچی اور لڑکے کو فون کیا کہ میں یہاں پر ہوں اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں تم آکر مجھے لے جائو لڑکا اس صورتحال سے بہت گھبرایا اس نے والد کو ماجرا سنایا والد خود اس جگہ پر گئے اور لڑکی کو لے کر قریب ہی اپنے ایک رشتے دار کے یہاں لے گئے اس لیے کہ لڑکی والدین کے گھر واپس جانے پر کسی صورت تیار نہ تھی انہوں نے دوبارہ لڑکی کے والد سے رابطہ کرکے تفصیل بتائی اور کہا کہ ہم لڑکی کو واپس آپ کے پاس لا رہے ہیں آپ کوئی تشدد نہیں کیجیے گا اور دوبارہ سوچ لیں بہر حال لڑکے کے والد نے لڑکی کو اس کے گھر پہنچا دیا جو مزید والد کے تشدد کا شکار ہوئی پھر اس بچی کے دیگر رشتے داروں سے لڑکے کے والد نے رابطہ کیا جو پہلے سے اس صورتحال سے واقف تھے انہوں نے مل جل کے خاموشی سے کورٹ میرج کرادی اس طرح سے اس لڑکی نے اپنی ضد پوری کی اور اپنے شوہر کے پاس آگئی ہنسی خوشی زندگی گزر رہی ہے۔ پہلے تو لڑکی کے والدین نے بہت سخت رویہ اپنایا اور موت زندگی ختم کردی لیکن وقت جو زخموں کا مرہم بھی ہوتا ہے اور اب لڑکی کے والدین نے ناراضی ختم کردی اور ان کا بھی آنا جانا شروع ہو گیا۔

ہمارے ملک میں لیلائے اقتدار کی جو میرج ہوئی ہے اسے آپ لو میرج بھی کہہ سکتے ہیں اور ارینج میرج بھی۔ جو لوگ ٹوٹ کر اقتدار سے یکطرفہ محبت کرتے تھے انہیں بہر حال اپنی محبت مل گئی حالانکہ وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتے تھے اس طرح یہ لو میرج ہے لیکن دوسری طرف لیلائے اقتدار جو اپنے کسی اور مجنوں کو پسند کررہی تھی وہ تو اپنے اسی چاکلیٹی ہیرو کے سحر میں گرفتار تھی جس کے نکاح میں وہ پہلے پونے چار سال رہ چکی ہے پھر اس کے سرپرستوں نے اس کی علٰیحدگی کروا کے کسی اور کے ساتھ بیاہ دیا تھا اب لیلائے اقتدار کا موقف تو اپنی جگہ درست تھا کہ ہلالہ ہوچکا اب میں شرعی طور پر اپنے سابقہ شوہر کے پاس جاسکتی ہوں پاکستان کے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے اسی کے حق میں اپنی رائے دی کہ جس لیلائے اقتدار کی خاطر ایک ناز و نعم میں پلا بڑھا شہزادوں کی سی زندگی گزارنے والا لڑکا جیل کی سختیاں برداشت کررہا ہے یہ اقتدار اسی کا حق ہے لیکن اس لیلائے اقتدار کے والدین سرپرست نے دو محبت کرنے والے دلوں کے درمیان ظالم سماج کا رول ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی اور پھر نہیں ہوئی اب لیلائے اقتدار کا دل تو اپنے سابقہ شوہر چاکلیٹی ہیرو میں اٹکا ہوا ہوگا اور جسم نئے شوہر پی ڈی ایم 2کے ساتھ اسی لیے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ زبردستی کا بندھن زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا کوئی چھے مہینے کی بات کررہا ہے کوئی سال ڈیرھ سال کہہ رہا ہے مولانا فضل الرحمن جیسے جید عالم دین اور سیاستدان تک یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بندوبست دو سال سے زیادہ نہیں چل سکتا۔

بہر حال اب جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب نئے شوہر پی ڈی ایم 2کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں ایک طرف تو لیلائے اقتدار کے دل کو لبھانا ہوگا اس کے لیے کچھ خواتین کو بھی اہم مناصب دے کر ساتھ لیا گیا ہے دوسری طرف اپنی لیلائے اقتدار کے سرپرستوں کی بلا چوں و چراں اطاعت کرنا ہوگا تیسری طرف انہیں لیلائے اقتدار کے سابق شوہر اور سسرال والوں کے شور شرابوں اور ہنگاموں سے حکمت کے ساتھ نمٹنا ہوگا اور چوتھی طرف پاکستان کے عوام کو بھی منانا ہوگا جن کے مینڈٹ پر ڈاکا ڈالا گیا موجودہ برسر اقتدار گروپ کے چاروں طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں ایک طرف پہاڑ جیسی مہنگائی تو دوسری طرف سمندر جیسی گہری کرپشن تیسری طرف آگ جیسا قومی انتشار اور چوتھی طرف قرضوں جیسی گہری کھائی ہے جس طرف بھی ایک قدم بڑھائیں گے دو قدم واپس آنا ہوگا اسی لیے حلف اٹھاتے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک تھانے کا اچانک دورہ کیا سندھ میں صرف ایک بارش کی پیش گوئی ہوئی تو حکومت سندھ نے آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کردیا اور بڑی محبت سے کہا گیا کہ لوگ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں حالانکہ اس سے پہلے شہر کراچی میں اس سے سخت بارشیں ہوچکی ہیں جو کئی دن تک چلتی رہیں۔ بہرحال حالات کیسے ہی سخت ہوں اب تو نبھانا پڑے گا۔