آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

618

آج کل کی اہم خبروں میں سب سے اہم خبر ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال کا وہ اعترافی بیان ہے جس میں انہوں اپنی ان ڈور اور محدود اجلاس میں اسلام آباد مذاکرات کی روداد بیان کی ہے سچی بات تو یہ ہے کہ شدید اختلاف کے باوجود ہمیں اس وقت ایم کیو ایم کی بے بسی، کمزوری اور کسمپرسی پر بڑا افسوس ہو رہا ہے۔ یہ سچ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاست داں کی آنکھوں میں مروت اور لحاظ والی بات ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اس موضوع پر بات آگے بڑھانے سے پہلے پتا نہیں کیوں مجھے نوے کی دہائی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے اور یہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ لائنز ایریا کا ایک کارکن باغی ہو گیا جان کے خوف سے وہ روپوش ہو گیا گھر والے اس کے لیے فکر مند رہتے لیکن وہ کبھی کبھی گھر فون کرکے اپنی خیریت سے آگاہ کرتا رہتا اسی دوران اس کی بہن کی شادی آگئی وہ چاہتا تھا کہ میں اپنی بہن کی شادی کی تقریب میں شریک ہو جائوں اعلانیہ گھر آ نہیں سکتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ جہیز کے لیے جو فرنیچر گھر آیا تو اس میں وہ لوہے کی الماری میں بند ہوکر گھر آگیا گھر میں بھی وہ چھپ کر رہتا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے لیکن شادی کے گھر میں تو محلے کی خواتین کا آنا جانا لگا رہتا ہے محلے کی کسی خاتون کی اس پر نظر پڑگئی، اس نے جاکر یونٹ میں اطلاع کردی شادی سے ایک دن پہلے والی رات کو اچانک کئی لڑکے گھر میں گھس آئے اور اسے پکڑ کر لے گئے۔ ماں روتی ہوئی دفتر پہنچی کہا گیا کہ ابھی مرکز سے ایک مرکزی رہنما آنے والے ہیں ان سے بات کرنا وہ کچھ کریں گے وہ رکی رہی وہ صاحب آگئے اخبار میں اس رہنما کا نام بھی چھپا تھا لیکن میں ان کا نام نہیں لکھوں گا کہ وہ کینسر سے مرچکے ہیں اور ملک سے باہر ہی دفنائے گئے ہیں اس عورت نے ان کے پیر پکڑ کے رو رو کر معافی مانگی اور اپنے بچے کی جان کی امان کی فریاد کی لیکن اس رہنما کا دل نہیں پسیجا اور دل پسیجتا بھی کیوں کہ جس تنظیم کارکنوں کو سخت دل بنانے کے لیے مرغی کا چوزہ ہاتھ میں پکڑوا کر کہا جاتا کہ اس بچے کو ایک ہاتھ سے اتنا سختی سے دبوچو کہ یہ مرجائے۔ اور پھر اس کے مرجانے پر کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے، بہرحال اس ماں کی فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ اس کے بچے نے بہت بڑا جرم کیا تھا کہ قائد سے غداری کی ہے لہٰذا جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے کے مصداق اس عورت کو یہ کہہ کر دھتکار دیا گیا کہ صبح تمہیں اس کی لاش مل جائے گی پھر جو اس کی موت کی ہولناک تفصیل اخبار میں چھپی تھی وہ یہ تھی رات بھر اس پر شدید تشدد کیا گیا۔ اس ظالمانہ تشدد کے بعد اس کے کانوں میں بجلی کے ننگے تار ڈال کر کرنٹ چھوڑ دیا گیا جس سے اس کا دماغ ختم ہوگیا وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا پھر صبح اس کے گھر والوں کو اس کی لاش مل گئی جس دن بہن کی شادی تھی اس دن اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔
پچھلی صدی کے آخری دہائی میں کراچی اور حیدرآباد میں ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ہیں جسے کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ ایک نوجوان کو غداری کے جرم میں اغوا کیا گیا اس کے والد نے اغوا کنندگان سے رابطہ کیا اور لاکھوں روپوں کی پیشکش کی لیکن دوسرے دن ایک کوڑے خانے سے اس کی لاش ملی جس کے سر میں ایک سوراخ تھا اس میں ایک پرچی لگی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا کہ افسوس ایک دولت مند باپ کا بیٹا جس کے نصیب میں مرنے کے لیے ایک گولی بھی نہ تھی۔ یہ خبر بھی اخبار میں تھی معلوم یہ ہوا کہ اس نوجوان کے سر میں زندہ حالت میں ڈرل کیا گیا۔ یہ تو تنظیم کی آپس کی جنگ تھی جس میں ہزاروں نوجوان مارے گئے لیکن اس سے پہلے مہاجروں کو پنجابی، پٹھان، بلوچ اور سندھیوں سے لڑوایا گیا پھر مہاجروں کو مہاجروں سے لڑوانے کے بعد اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کے سیکڑوں لوگ صرف اس جرم میں موت کے گھاٹ اتاردیے گئے کہ کسی موقع پر ان پولیس والوں نے تنظیم کے فلاں فرد کو بلاوجہ پکڑا تھا یا مارا تھا یا یہ کہ یہ جب ڈیوٹی پر تھا تو اس نے تنظیم کا کہنا نہیں مانا تھا۔ پولیس سے لڑتے لڑتے ایک دوسرے اہم ادارے فوج اور رینجرز کی طرف چلے گئے رینجرز کے کئی لوگوں کو تو ہدف بنا کر قتل کیا گیا فوج کے میجر کلیم کو پکڑ کر اپنے لانڈھی کے ٹارچر سیل میں لے گئے اب وہاں پتا نہیں ان پر تشدد شروع ہوا تھا یا نہیں تنظیم کی ایک مرکزی قیادت ہانپتی کانپتی سیل میں پہنچی اور انہیں وہاں سے رہا کرایا اسی طرح لیاقت آباد سے تین فوجیوں کو جو چھٹی پر گھر آئے ہوئے تھے فردوس شاپنگ سینٹر کے پاس خریداری کرتے ہوئے پکڑا گیا پھر تین بائیک پر دو دو لوگ بیٹھے درمیان میں ان کو بٹھایا سی ایریا میں ایک دوسرے گروپ تک پہنچا دیا اسی وقت شام کے اخبار کا سپلیمنٹ بازار میں آگیا جس میں سی ایریا کے قبرستان سے تین افراد کی لاشیں ملیں اس طرح کی لاشیں ملنے کی خبریں تو روز ہی شائع ہوتی تھیں۔ نام یاد نہیں فوج کے ایک سینئر عہدیدار کا ایک بیان پڑھا تھا کہ ہم جب بھی نائن زیرو جاتے تو ہمیں بھی اپنے جوتے اتارکر تلاشی دینا پڑتی تھی۔
یہ تھا ایک مختصر سا جائزہ اس تنظیم کا جس کے ساتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بڑی شفقت والا برتائو کیا ہے پیپلز پارٹی جس کے زرداری صاحب صدارتی امیدوار ہیں کہہ رہی کہ ہماری تو چالیس پچاس فی صد دھاندلی والی سیٹیں ہیں ایم کیو ایم کی تو سو فی صد دھاندلی اور فراڈ کی سیٹیں ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں انہیں کراچی کے شہریوں کا مینڈٹ حاصل نہیں ہے دوسری بات وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نمبر تو پورے ہو چکے ہیں اس لیے اب ایم کیو ایم کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ مسلم لیگ ن کے وفد نے ان سے کہا ہوگا کہ ہماری آپ کی جو پہلے بات ہوئی تھی اس وقت سیاسی ماحول کچھ اور تھا اب کچھ اور ہے اس لیے انہوں نے جان چھڑانے کے لیے پی پی پی کا کندھا استعمال کیا۔ انتخابات سے قبل جب ن لیگ اور ایم کیو ایم کے مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ ہوا تھا اس میں داغ اسی وقت پڑگیا تھا جب شہباز شریف کو کراچی سے واپس جانا پڑا کہ مصطفی کمال اپنی نشست چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ پھر اس معاہدے کے بعد کسی نے ن لیگ کے بارے میں کیا خوبصورت بات کہی کہ مسلم لیگ ن کراچی کے سابق میئر وسیم اختر کے وہ ریمارکس بھول گئی جو انہوں نے پنجاب والوں کے لیے آن ائر کہا تھا۔ ایم کیو ایم جب 1986 میں آئی تو اس وقت سے پندرہ برس تک اس کا توتی بولتا رہا شروع کے تین چار انتخابات چاہے وہ بلدیاتی ہوں یا قومی ایم کیو ایم کو بہت ووٹ ملتے تھے اور یہ اصل ووٹوں سے جیت جاتی لیکن بعد کے انتخابات میں ان کو چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل رہتی اس لیے اپنی جیت کو عظیم الشان جیت دکھانے لیے یہ دہشت گردی کا سہارا لے کر پولنگ اسٹیشنون پر قبضہ کرکے اتنی بے حساب جعلی ووٹنگ کرتے کہ اس اسٹیشن میں جتنے ووٹ ہوتے یہ اس سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلیتے اس دفعہ فرق یہ ہوا کہ انہیں یہ کام نہیں کرنا پڑا کسی اور نے کردیا۔
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ اس وقت ایم کیو ایم کراچی والوں کے لیے اگر کچھ کرنا بھی چاہتی ہے تو وہ اس لیے نہیں کر پائے گی کہ اس کے پر کاٹ دیے گئے ہیں وہ اپنی اڑان بھول گئی لیکن ہم سمجھتے ہیں حالیہ انتہائی متنازع انتخاب کے نتیجے میں جو بھی حکومت تشکیل پائے گی اس کی پائداری مشکوک اور تسلسل خطرے میں رہے گا لیکن جن قوتوں نے پانچویں نمبر پر آنے والی ایم کیو ایم کو پہلا نمبر دلایا ہے وہ ایم کیو ایم کا مسلم لیگ ن اور پی پی پی سے کوئی معاہدہ کرا دیں گے۔ دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔