کمشنر راولپنڈی؛ نفس امارہ سے نفس لوامہ تک

366

پچھلے دنوں کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے ہمارے بوسیدہ انتخابی نظام پر جو بم پھوڑا ہے اس نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ کمشنر تو نفسیاتی مریض ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تو پہلے ہی پاگل شخص تھا۔ اس سے بڑے پاگل اور نفسیاتی مریض وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کو اتنا بڑا اور اہم سرکاری عہدہ دیا ہوا تھا۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ کمشنر کا الیکشن عمل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ تعلق ہوتا کیسے نہیں ہے اس کی ساری تفصیل تو اوریا مقبول جان نے اپنی پوڈ کاسٹ میں بیان کی ہے کیونکہ وہ خود برسوں اس منصب پر رہ کر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس نے یہ پھر کیسے بتایا کہ پنڈی کی 13قومی اسمبلی کی نشستوں پر 70ہزا ووٹوں سے ہارنے والے لوگوں کو 50 اور 60ہزار ووٹوں سے جتوا دیا گیا ہمارے آر اوز اور ڈی آر اوز تو رو رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں تو آج صبح فجر کے بعد خودکشی کرنے جارہا تھا پھر سوچا حرام موت مرنے سے بہتر ہے کہ اپنی زندگی میں قوم کو سچ بتادیا جائے۔ اس کے اس انکشاف کے بعد پنڈی کے ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کے اندر سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی، حنیف عباسی نے بھی اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے انہوں نے اپنے آپ کو پنڈی کے چوک پر پھانسی دینے کا بھی مطالبہ کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس میگا دھاندلی کے سرپرست چیف الیکشن کمشنر کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

سورہ قیامہ کی آیت نمر 2 کا ترجمہ ہے ’’اور نہیں میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘ مولانا مودودی نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے ’’قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پراکساتا ہے اس کا نام نفس امارہ ہے۔ دوسرا وہ نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر نادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔ اس کا نام نفس لوامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس کا نام نفس مطمئنہ ہے‘‘۔ آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں، ’’کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس ضمیر میں لازماً بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے، وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد ششم: صفحہ 162-163) مفتی شفیع اپنی تفسیر معارف القران میں ایک اور نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ’’عمل واجب میں کوتاہی ہوئی اس پر خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا اور اعمال خیر و حسنات کے متعلق بھی اپنے آپ کو اس پر ملامت کرے کہ اس سے زیادہ نیک کام کرکے اعلیٰ درجات کیوں نہ حاصل کیے‘‘۔

اس مسئلے پر سب سے زیادہ احمقانہ فیصلہ تو حکومت وقت کا ہے کہ اس کو اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنا تھی یا اس کی جیوڈیشنل انکوائری کا حکم دیا جاتا بجائے اس کے الیکشن کمیشن ہی کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اتنے بڑے بلنڈر اور اتنی عظیم الشان کوتاہی کی انکوائری وہ ادارہ خود کرے گا جس کے خلاف یہ ساری شکایات ہیں۔ اس پر ہمیں اپنے محلے کا ایک پرانا واقعہ یاد آگیا کہ ایک صاحب نے ڈی آئی جی کراچی کو ایک خط میں شکایت کی کہ ان کے محلے میں کافی عرصے سے جوئے کا اڈہ چل رہا ہے اور مقامی تھانے کا ایس ایچ او اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا، ڈی آئی جی نے متعلقہ ایس پی کو وہ خط بھیجا کہ اس کی تحقیقات کرکے رپورٹ دی جائے، ایس پی نے متعلقہ ڈی ایس پی کو اپنے ریمارکس کے ساتھ بھیج دیا ڈی ایس پی نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو وہ خط بھیج دیا کہ اس کی تحقیقات کرکے رپورٹ دی جائے اب ایس ایچ او کو اپنے خلاف شکایت کی خود تحقیقات کرنی ہے، ایس ایچ او نے شکایت کنندہ کو بلایا اور تھانے میں خوب اچھی طرح اس کی چھترول کی اور کہا کہ تم محلے میں جوئے کا اڈہ چلاتے ہو یہ دیکھو میرے پاس تمہارے خلاف درخواست آئی ہوئی ہے۔ وہ بڑے میاں کہہ رہے ہیں نہیں صاحب میں نہیں کوئی اور اڈہ چلاتا ہے غلط شکایت کی گئی ہے۔ تھانیدار نے کہا اس پر لکھو کہ میں نے غلطی سے شکایت کردی تھی ہمارے محلے میں کوئی جوئے کا اڈہ نہیں چلتا پھر اس نے اپنے مخبروں کے ذریعے محلے والوں سے ایک تحریر لکھوائی کہ ہمارے محلے میں کوئی برائی کے اڈے نہیں چلتے ہمار ے علاقے کے تھانیدار تو بہت اچھے ہیں یہ خود برائی کے اڈو ںکے خلاف فوری کارروائی کرتے ہیں۔ تھانیدار نے یہ تحریر اور شکایت کنندہ کی درخواست پر لکھا کہ یہ ایک نفسیاتی مریض بڈھا ہے ایسے ہی ہر جگہ جھوٹی سچی شکایتیں لکھتا رہتا ہے، محلے والوں کی گواہی بھی ساتھ ہی منسلک ہے۔

کمشنر راولپنڈی کے مسئلے میں بھی بالکل ایسے ہی ہوا ہے کہ جس الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر پہلے ہی بہت سے سوالات اور اعتراضات تھے اس پر ایک اور بھاری ملبہ گر گیا اب اسی کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپرلگے اتنے سنگین الزامات کی خود تحقیقات کرکے رپورٹ دے، پہلے تو فوری طور پر یہ کیا گیا کچھ آر اوز اور ڈی آر اوز کو جمع کیا گیا اور ان سے پریس کانفرنس کروائی گئی کہ کمشنر پنڈی کے الزمات غلط ہیں ہم سب نے اپنی ذمے داریاں دیانت داری سے ادا کی ہیں، پھر چیف الیکشن کمشنر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ تین دن کے اندر لیاقت چٹھہ کے الزامات کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں۔ 22فروری کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ سابق کمشنر لیاقت چٹھہ کے الزامات پر الیکشن کمیشن انکوائری کمیٹی نے ٹاسک مکمل کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی نے رپورٹ کا ابتدائی ڈرافٹ مکمل کرلیا، الیکشن کمیشن انکوائری کمیٹی نے سابق کمشنرکے خلاف فوجداری کارروائی تجویز کردی۔ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف الزامات پر توہین چیف الیکشن کمشنر کی کارروائی کی بھی تجویز دی گئی ہے انکوائری کمیٹی نے ڈی آر اوز اور ریٹرننگ افسران کے بیانات کو رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی تھی راولپنڈی کے 6ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے تحریری بیانات جمع کرادیے جس میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کو مسترد کردیا کمیٹی کے سربراہ نثار درانی نے ڈی آر اوز کے بیانات کو قلمبند کیا۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی نے لیاقت چٹھہ کی پریس کانفرنس کے ٹرانسکرپٹ کے لیے پیمرا کو خط لکھ دیا ہے۔

ہمارا کہنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سرکاری ملازمین تھے، پہلے یہ بات آرہی تھی کہ تما م آر اوز اور ڈی آر اوز عدلیہ سے لیے جائیں گے لیکن بوجوہ وہ فیصلہ نہ ہو سکا اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین جن کی سروس بکیں ان کے اعلیٰ افسران کے پاس ہوتی ہیں اگر انہوں نے کمشنر راولپنڈی کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر حق اور سچ بیان کردیا تو ان کا تو پورا سروس کیریئر تباہ ہو جائے گا اس لیے وہ اپنا مستقبل بچانے کے لیے اسی طرح لکھے ہوئے بیانات پر دستخط کرنے پر مجبور ہوں گے جیسا کہ اس ایس ایچ او نے شکایت کنندہ سے اپنی مرضی کی تحریر لکھوائی تھی۔