اک معّما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

761

پاکستان تخلیق ہوا تھا تو ہمارا حال اقبال کے اس شعر جیسا تھا۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

ایسا محسوس ہونے کی ایک نہیں کئی وجوہ تھیں۔ ہمارے پاس ایک شاندار نظریہ¿ حیات تھا، ہمارے پاس ہماری تاریخ کا تحرک تھا۔ کروڑوں خواب اور کروڑوں امیدیں تھیں، ہمارے پاس قائداعظم جیسی بے مثال قیادت تھی، لیکن بدقسمتی سے آج ہمارا حال ان شعروں جیسا ہے۔

اک معّما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
٭٭
ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا معما یہ ہے کہ قیام پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت نہ جرنیل تھے، نہ کوئی فوج تھی۔ لیکن اس کے باوجود آج پاکستان پر فوج کا غلبہ اور جرنیلوں کا قبضہ ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جمہوریت بحال کردیتے ہیں۔ ترکی میں فوج کا غلبہ ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ترکی کی فوج نے ملک و قوم کی آزادی کی جدوجہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ الجزائر میں فوج غالب ہے تو اس کی منطق یہ ہے کہ الجزائر کی فوج نے آزادی کی جنگ لڑ کر دکھائی تھی۔ مگر جب پاکستان بن رہا تھا تو کوئی فوج موجود نہ تھی، نہ جرنیلوں کا کوئی وجود تھا، قیام پاکستان دو قومی نظریے، قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت اور برصغیر کی ملت اسلامیہ کے تحرک کا حاصل تھا۔ مگر آج پاکستان میں جرنیلوں کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔

بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی کو صرف ایک معمے کا سامنا نہیں۔ فوج کے غلبے اور جرنیلوں کے قبضے کے معمے نے ہماری زندگی کو کئی معموں سے دوچار کردیا ہے۔ مثلاً اس وقت کروڑوں لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ پرویز الٰہی تو اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں مگر اس کے باوجود وہ عمران خان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ آخر اس راز کی حقیقت اور اس معمے کا حل کیا ہے؟ لاکھوں کا اصرار ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں مگر انہوں نے بھی عمران خان کے خلاف کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔ وہ بھی اب تک عمران خان کا ساتھ نبھارہے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ان معموں اور ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ ملک میں عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کی صورت حال برپا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کی صورت حال برپا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقت ور دھڑا کل بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔ 9 مئی جنرل عاصم منیر کے خلاف اس دھڑے کی بغاوت کا دن تھا۔ مگر یہ بغاوت کامیاب نہ ہوسکی اور اس بغاوت کے کئی فوجی کردار دھر لیے گئے۔ لیکن یہ دھڑا اب بھی طاقت ور، متحرک اور موثر ہے۔ اس معمے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے تمام حلیف مل کر بھی عمران خان کی مقبولیت کو کم نہیں کرسکے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف ہونے والی ہر زیادتی کے بعد عمران خان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ کون سا کیس ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے خلاف نہیں بنایا۔ اس نے توشہ خانہ کیس بنایا، سائفر کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا، حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پر بشریٰ بی بی کے ساتھ عدت کے دوران نکاح کا کیس بھی بنادیا۔ مگر عوام کی عظیم اکثریت نے عمران خان کے خلاف عائد ہونے والے کسی الزام کو بھی درست ماننے سے انکار کردیا۔

یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں انتخابات کرانے کے لیے تیار نہ تھی مگر بالآخر اس نے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ عوامی اور بین الاقوامی دباﺅ تھا مگر اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ اپنے مطلب کے نتائج حاصل کرنا تھا۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف کو ہیرو بنا کر پاکستان لایا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو جیل میں ڈال دیا اور ان پر مقدمات کی بارش کردی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان انتخابات کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا۔ اس نے تحریک انصاف کو ایک جلسہ کرنے کی بھی اجازت نہ دی۔ اس نے تحریک انصاف کو جلوس نکالنے کے قابل بھی نہ چھوڑا۔ انتخابات کے دن کہیں بھی تحریک انصاف کے کیمپ موجود نہ تھے۔ ذرائع ابلاغ پر عمران خان کا نام لینا بھی منع تھا۔ ملک کے ہر انتخابی حلقے میں تحریک انصاف کا انتخابی نشان جداگانہ تھا۔ ان حالات میں سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف نے پنجاب، کے پی کے اور کراچی میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی۔ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے مینڈیٹ پر ڈاکا نہ ڈالتی تو تحریک انصاف قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی اور پنجاب میں بھی اسی کی حکومت ہوتی۔ معروف کالم نویس جاوید چودھری کا شمار شریف خاندان کے ”صحافتی کتوں“ میں ہوتا ہے مگر جاوید چودھری نے بھی اپنے ایک کالم میں اعتراف کیا ہے کہ انتخابات پر ڈاکا نہ ڈالا جاتا تو میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی اپنی نشستوں پر کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ چنانچہ جاوید چودھری نے شریفوں کو مشورہ دیا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کی طرح بھی اپنی نشستیں تحریک انصاف کے حوالے کردیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی ہزار کوششوں کے باوجود انتخابات میں تحریک انصاف کی غیر معمولی کامیابی ایک اور بڑا معما ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کے باوجود تحریک انصاف نے غیر معمولی انتخابی کامیابی کیسے حاصل کی؟۔ اس سوال کا ایک جواب عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت ہے۔ لیکن اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں بالائی سطح پر جو سوچا جارہا تھا نچلی سطح کے لوگ اس سوچ کے برعکس عمل کررہے تھے۔ چنانچہ انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندلی نتائج کے اعلان کے ابتدائی مرحلے میں پوری طرح ثابت ہو کر سامنے آگئی اور قومی شعور کا حصہ بن گئی۔

بعض لوگ فوج میں دھڑے بندی کے خیال کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں فوج میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اعلیٰ قیادت چاہتی ہے اور فوج میں اعلیٰ قیادت کا مطلب آرمی چیف ہوتا ہے۔ لیکن فوج میں دھڑے بندی اور اعلیٰ قیادت کے خلاف بغاوت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جنرل ایوب پاکستان کے ”مرد آہن“ تھے، وہ گیارہ سال سے ملک پر قابض تھے مگر ایک سہانی شام جنرل یحییٰ چھے سات اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے ہمراہ ایوانِ صدر میں جنرل ایوب سے ملے اور انہوں نے ملاقات میں صدر ایوب سے کہا کہ صدر صاحب اب آپ کو جانا ہوگا۔ یہ جنرل ایوب کے خلاف ایک داخلی بغاوت تھی اور جنرل ایوب سمجھ گئے کہ اب اقتدار سے چمٹے رہنا ممکن نہیں۔ چنانچہ انہوں نے استعفا دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ کے پاس آگیا۔

جنرل ضیا الحق ”امیرالمومنین“ تھے۔ وہ بھی گیارہ سال سے اقتدار پر قابض تھے۔ اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں افغانستان کے حوالے سے ان کے خیالات امریکی اہداف سے ہم آہنگ نہیں رہے تھے۔ چنانچہ امریکا نے انہیں راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا، لیکن اس سلسلے میں فوج کے اندر کے عناصر ہی بروئے کار آئے۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ اس دھماکا خیز مواد سے تباہ ہوا جو آموں کی پیٹیوں میں چھپا کر جنرل ضیا الحق کے طیارے میں رکھا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے طیارے تک صرف فوجی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی رسائی ہوسکتی تھی۔ عام آدمی ان کے طیارے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔

جنرل پرویز نائن الیون کے بعد ”امریکا کے آدمی“ بن کر اُبھرے تھے اور ان کے خلاف سازش آسان نہیں تھی مگر ان کے خلاف وکلا کی تحریک پھوٹ پڑی۔ اس تحریک کی پشت پر جنرل کیانی موجود تھے، ان کے بغیر یہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی تھی اور جنرل پرویز کا زوال حقیقت بن کر سامنے نہیں آسکتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی پشت پر فوج کے ایک طاقت ور دھڑے کی موجودگی قرین قیاس محسوس ہوتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پیرپگارا کوئی ہو وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوتا ہے۔ اس آدمی کو تاریخ میں کبھی جلسہ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ مگر حالیہ انتخابات میں ڈاکا زنی کی بڑی وارداتوں کے بعد پیرپگارا نے ایک بڑا جلسہ کر ڈالا ہے۔ بلاشبہ پیر پگارا نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی مگر پیرپگارا کا عوامی احتجاج اس امر کا اظہار ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ ایک ”ہم آہنگ کُل“ نہیں ہے اس میں دھڑے بندی ہے اور ایک دھڑا جی جان سے عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔