معصوم ہند رجب کی دلدوز شہادت

449

’’ٹینک بہت قریب ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘

یہ فلسطینی بچی کی آخری کال تھی۔ مدد کے لیے اس کال کے درمیان فائرنگ کی آواز آئی اور کال کٹ گئی۔ یہ ہند رجب نام کی چھے سالہ فلسطینی بچی تھی۔ جو اپنی چچی، چچا اور تین چچا زاد بہن بھائیوں کے ساتھ غزہ سے محفوظ علاقے کی طرف جارہی تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے گاڑی پر فائرنگ کی اور ہند رجب اور اس کی کزن کے علاوہ سب لوگ شہید ہوگئے۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کو موصول ہونے والی پہلی کال ہند رجب کی نو عمر کزن لایان حمادہ کی تھی۔ جو کہہ رہی تھی کہ اسرائیلی ٹینک ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پھر گولیاں چلنے اور چیخنے کی آواز آئی۔ اب واحد بچنے والی ہند رجب تھی جو اپنے خاندان کے لوگوں کی لاشوں کے پیچھے چھپ رہی تھی۔ اس نے پھر اپنی جان بچانے کے لیے کال کی۔ امدادی کارکن اس بچی سے فون پر بات کرکے تسلی دیتے رہے۔ ہند رجب کی آڈیو کلپ میں وہ روتے ہوئے کہہ رہی ہے ’’آئو اور مجھے لے جائوں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز آجائیں‘‘ اس دوران امدادی ایمبولینس اسرائیلی فوج کے گرین سگنل اور رابطے کے بعد محفوظ قرار دیے جانے کے بعد ان کے پاس پہنچی لیکن اس کے بعد ایمبولینس اور ہند رجب دونوں سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ ریڈ کریسنٹ کے ترجمان نے بتایا کہ امدادی ٹیم کے ساتھ ہماری آخری بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے انہیں لیزر شعاع سے نشانہ بنایا اس کے فوری بعد ہم نے گولیوں کی آوازیں سنیں اور پھر دھماکا ہوا۔ اسرائیلی فوج کی سنگ دلی اور شقاوت کا اندازہ لگائیے انہوں نے ایک عام شہری کے خاندان کو نشانہ بنایا پھر یہ جانتے ہوئے کہ گاڑی میں دو بچیاں زندہ ہیں انہوں نے ایک کے بعد ایک کو قتل کیا۔ ہند رجب اپنے خاندان کے لوگوں کی لاشوں میں گھری تھی چھپ رہی تھی اسرائیلی ٹینک نے اسے بھی قتل کرنے کے لیے گولیاں چلائیں امداد کے لیے آنے والے دو ریڈ کریسنٹ کے لوگوں کو بھی گولہ باری سے نشانہ بنایا کیونکہ جب وہ ملیں تو وہ مکمل طور پر جلی ہوئی تھی اس کا انجن نکل کر زمین میں پھیلا ہوا تھا۔ ان دونوں گاڑیوں اور اس کے لوگوں کو 29 جنوری کو نشانہ بنایا گیا۔ جب کہ ہند رجب اور اس کے خاندان کی لاشوں کو بارہ دن بعد دریافت کیا جاسکا۔ کیا اسرائیل کی افواج اور حکومت کی شقاوت کا اندازہ لگانے میں کوئی کامیاب ہوسکتا ہے؟ ہم روز معصوم بچوں کی لاشوں کو ماں یا باپ کی بانہوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے وہ ہیں جن کے خاندان کا کوئی موجود نہیں، سب کے سب شہید کر دیے گئے ہیں۔ غزہ کے اکثر اسپتال اسرائیلی افواج کے حملے میں تباہ ہوچکے ہیں، اسپتال کے عملے بھی باقاعدہ نشانہ بنائے گئے۔ مریضوں کو اسپتالوں سے نکال کر سڑکوں پر پھینکا گیا، ابھی دو دن قبل اسرائیلی فوج ناصر اسپتال پر حملہ آور ہوئی اس کی دیواریں گرا کر اس کو اپنی فوج کی بیرکوں میں تبدیل کردیا۔ اسپتال انتظامیہ کے سو ارکان اُن کے اہل خانہ اور دو سو مریضوں اور ان کے لواحقین کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ قابض فوج نے آکسیجن ٹیوب کو نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں آکسیجن کا دبائو کم ہوگیا ہے، نرسری میں معصوم بچوں کو خطرہ لاحق ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر سے قابض افواج غزہ پر تباہ کن حملے کررہی ہے اور خون ریزی میں مصروف ہے۔ آج تک اس جنگ میں ایک لاکھ دس ہزار سے زائد فلسطینی شہید، زخمی اور لاپتا ہیں، بنیادی انسانی ضروریات اور سہولتیں تباہ ہوچکی ہیں، اسرائیل گھروں اور شہری بنیادی ڈھانچوں کو بمباری کرکے علاقے کو ناقابل رہائش بنا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے اپنی افواج کو حکم ہے کہ وہ غزہ کا مکمل محاصرہ کریں اور کسی بھی حصے میں خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کو داخل نہ ہونے دیں۔ غزہ کی 80 فی صد آبادی غذائی قحط کا شکار ہے۔ غزہ کے 5 سال سے کم عمر 3 لاکھ 35 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غذائی قلت کے باعث ایک پوری نسل کا مستقبل جسمانی اور ذہنی معذوری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ قابض اسرائیل غزہ میں اپنے مظالم اور بربادی کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کے لیے اب تک ایک سو تیس صحافیوں کو شہید کرچکا ہے، مقصد وہی ہے کہ فلسطین کی آواز کو خاموش کرایا جائے۔ تا کہ غزہ کی تباہی کی خبریں، معلومات اور حقائق دُنیا تک نہ پہنچیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کے جسموں سے اعضا چرانے میں بھی ملوث ہے، پچھلے دنوں اسرائیلی فوج کی جانب سے 80فلسطینیوں کی لاشیں جنوبی غزہ لائی گئیں فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ ان لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے اعضاء بھی چرائے گئے ہیں۔ قابض اسرائیل کے جرائم انسانیت سے اس حد تک گرے ہوئے ہیں کہ انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین لگتی ہے۔ ان سب جرائم میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک اُس کے مددگار ہیں۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم میں یہ سب اسرائیل قابضین کے ساتھ شریک ہیں۔ انہیں ہند رجب کی معصوم فریادیں سنائی دیتیں ہیں نہ دودھ اور پانی کے لیے بلکتے بچے کا احساس ہوتا ہے۔ عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود اسرائیل قابض اُسی طرح معصوم شہریوں پر بمباری میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ منہ پھیرے بیٹھی ہے، عرب اور اسلامی ممالک اگر آج متحد ہو کر اسرائیلی درندگی کو روکنے کے لیے سیاسی اور معاشی دبائو کو استعمال کریں تو قابضین کو لگام دی جاسکتی ہے۔