!مہنگائی کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ

440

وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات تو کیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا جوکہ افسوسناک امر ہے۔ ملک بھر میں مہنگائی نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ انتظامیہ کے تمام تر دعووں کے باوجود سبزی اور گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہونے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے دھاپے بھی محض چند مقامات تک محدود ہیں جس کے باعث مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی، جبکہ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بُری طرح نام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام کو ماضی کی طرح فعال کیا جائے، حالانکہ میں نے اپنے کالموں کی انہی سطور میں کئی بار مجسٹریسی نظام کو دوبارہ شروع کرنے کا ذکر کیا تھا۔ دکاندار اپنے من پسند نرخوں پر اشیاء خور ونوش فروخت کر رہے ہیں مہنگائی سے پریشان شہریوں نے انتظامیہ کی کارروائیوں اور جرمانے کے اعداد و شمار کو خانہ پوری قرار دیا ہے۔ منافع خوروں کے سامنے پوری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب غریب اور مڈل کلاس طبقے کے لیے سبزی خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق ماہ جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔ سالانہ شرح 28.3 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں چکن 31.44 فی صد مہنگی ہوئی، ٹماٹر 28 فی صد، پیاز 28 فی صد اور انڈے 17 فی صد مہنگے ہوئے۔ ادارہ شماریات کے مطابق سبزیاں 8.31 فی صد، دال چنا 7.63 فی صد، چائے 5 فی صد مہنگی ہوئی، ٹرانسپورٹ کرایوں میں پندرہ فی صد، گارمنٹس میں 6.84 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بجلی 6.85 فی صد مہنگی ہوئی۔ سالانہ بنیاد پر ٹماٹر 154 فی صد، سگریٹ 98 فی صد مہنگے ہوئے، ایک سال میں گیس کی قیمتوں میں 520 فی صد اضافہ ہوا، اس دوران بجلی ٹیرف میں 70 فی صد اضافہ ہوا، سالانہ بنیاد پر ٹرانسپورٹ کرائے 41 فی صد بڑھ گئے۔ وزیر اعظم اب بھی کہ رہے ہیں کہ ’’ہم عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتے رہیں گے‘‘۔ کاش کوئی اس موقع پر سوال اٹھا تا اور وزیر اعظم سے پوچھتا کہ وہ کس ملک کے شہریوں کی بات کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے تو انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نگران تو اب اپنا ساز ور لگا کر چلتے بنے، اب نئی آنے والی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے عوام کو مہنگائی سے نجات دلوائے اور مہنگائی کو کنٹرول کرے۔
مہنگائی کنٹرول کرنا اور معیشت کو سنبھالا دینا اگر کوئی چاہے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں اشرافیہ کی 17 ارب ڈالر کی عیاشیاں ختم کر دی جائیں تو آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متذکرہ مجموعی تناظر میں ایک ٹھوس میکنزم بنانے کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی اور خوراک کے عدم تحفظ سے دو چار غریب طبقے کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکے۔ اسی طرح مارکیٹ سے بعض ادویات کی قلت کی شکایات بھی ہیں، ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والا طبقہ معاشی طور پر جس ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ ان حالات میں حکومت اگر مہنگائی پر قابو نہ پاسکی تو انتہائی غریب لوگوں کے لیے جسم وروح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ مہنگائی کی اس لہر سے عوامی سطح پر پریشانی پیدا ہوگی اور پہلے سے کمزور قوت خرید رکھنے والے عوام کے لیے ضروریات زندگی کو پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ عوام میں موجود بے چینی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو خطرہ موجود ہے کہ حکومت اور حکومتی پارٹی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی ذمے دار اپنے فرائض منصبی پوری دلجمعی کے ساتھ ادا نہیں کر رہا، ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے اور ’’لاس د بری کار دے‘‘ والا معاملہ ہے، جس کا جو جی چاہے وہ کر رہا ہے۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی سطح پر ان کی کوئی شنوائی نہیں اور نہ ہی کسی کو عوامی مسائل کی پروا دکھائی دیتی ہے، تمام سرکاری محکموں کا برا حال ہے، یہ سوچ ایک خطرناک رجحان اور عوام سے حکومتی ذمہ داران کے درمیان فاصلوں کو ظاہر کرتی ہے، جسے ختم نہ کیا گیا تو حکومت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے ہر حال میں بچنے کی ضرورت ہے۔