الیکشن کے کاندھے پر سر رکھے سسکیاں لیتے لوگ (2)

445

الیکشن کے نتائج سب کے لیے ایک ایک بڑا اپ سیٹ اور ناقابل برداشت بوجھ ہیں جسے کوئی ایک جماعت تنہا نہیں اٹھا سکتی۔ ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے پتے نئے سرے سے کھیلنا پڑیں گے۔ سوشل میڈیا کو آرگنائز کرنے میں ن لیگ کی کارکردگی ہمیشہ ہی غیر متاثر کن رہی ہے الیکشن کے نتائج کے اعلان کے دوران بھی ایسا ہی رہا۔ سوشل میڈیا اور الیکٹراونک میڈیا پر کہیں وہ موجود نہیں تھے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ان کی کوئی خاص اسٹر ٹیجی نہیں تھی۔ ان کے رہنما بھی رات کو اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ میاں نواز شریف کو جو تقریر کرنی تھی وہ بھی ملتوی کردی گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ن لیگ لڑنے سے پہلے ہی ہار گئی ہے۔ جب کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر وہ غلغلہ بلند کررکھا تھا کہ ہر طرف یقینی کامیابی کی خبروں سے جشن کا سماں تھا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اپنی حکومت ترتیب دے چکی تھی۔ بس صبح عمران خان کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہونا باقی تھی جس کے بعد انہیں آرمی چیف کی ممکنہ برطرفی کا اعلان کرنا تھا۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کی اس زبردست کارکردگی کے بعد آپ کہتے رہیں کہ پی ٹی آئی کو ڈیڑھ سو سیٹیں نہیں ملیں ذہنوں سے یہ بات کیسے کھرچی جاسکتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان یہ تینوں پاپولسٹ لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے تخلیق کردہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے ذریعے پیپلز پارٹی کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کی اور پھر عمران خان کے ذریعے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان ابتدا میں تو اسٹیبلشمنٹ کے فرما نبردار مہرے رہے لیکن پھر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں اور آخر آخر وہ اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑ گئے۔ عدالتی فیصلوں اور نواز شریف کو واپس لاکر اسٹیبلشمنٹ نے ایک پاپولسٹ لیڈر کو دوسرے پاپولسٹ لیڈر کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ تمام دائو الٹے پڑے۔ یکے بعد دیگرے عدالتی فیصلوں اور تیزرفتار انصاف نے عمران خان سے ہمدردی کی دھیمی لہروں کو طوفانوں میں بدل دیا۔ رہے نواز شریف تو عشروں سے جس تندی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو چور چور کہلوایا تھا عمران خان کا جوان ووٹر ذہنی طور پر اس سے اتنی مضبوطی سے جڑ چکا ہے کہ اب اس کا ہلانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ الیکشن کے حالیہ نتائج کے بعد ان جذبات اور عمران خان کے حوصلوں میں مزید اور مزید اور مزید تیزی آئے گی۔ عمران خان کو تسخیر اور قابو کرنے کے لیے مسائل کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اب بلندو بالا سر بفلک پہاڑوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔

پی ٹی آئی کو سزا دینے کے ردعمل میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے ایک مضبوط بیانیے کے ذریعے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر ایک ایسی مخلوط حکومت تشکیل دے سکیںجو اگلے الیکشن تک اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ مل کر کام کرسکے، ملک کی معیشت کو دوبارہ استوار کرسکے اور گزشتہ برسوں سے عوام کو لگنے والے مسلسل چرکوں اور زخموں پر مرہم رکھ سکے اتنا کہ لوگ دوبارہ ان پر اعتماد کرسکیں اور چور چور کے چورن کو اپنے دماغوں سے باہر نکا ل سکے تب ہی موجودہ صورتحال کا ازالہ ممکن ہے۔ ن لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی محفوظ قلعوں میں ہے۔ عمران خان پیپلز پارٹی کے قلعوں میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ عمران خان اور پیپلز پارٹی دونوں محفوظ زون میں ہیں۔ مسئلہ ن لیگ کا ہے۔

پی ٹی آئی نے پنجاب میں ان ان شہروں میں ن لیگ کے مضبوط قلعوں کو مسمار کیا ہے جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ کہاں یہ توقعات کہ دوتہائی اکثریت سے حکومت بنائیں گے اور کہاں موجودہ صورتحال کہ ستر پچھتر سیٹیں اور وہ بھی خدشات میں گھری ہوئی۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی بمشکل سادہ اکثریت حاصل ہو سکی ہے۔ اگلے الیکشن سے پہلے ن لیگ کو اپنی رگوں میں نیا خون داخل کرنا ہوگا۔ عوام کے لیے ٹھیک ٹھاک ہی نہیں آخری حدوں تک جاکے فلاح کے کام کرنے ہوں گے۔ آئندہ کا جو بھی منظر نامہ بنے گا اس کا اچھا برا ن لیگ ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے بعد یا تو ن لیگ تاریخ کے کباڑ خانے کی نذر ہوجائے گی یا پھر انگڑائی لے کر دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔

تحریک انصاف کو منظر نامے سے ہٹانے اور روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود منظرنامے سے ہٹنا تو درکنار تحریک انصاف ایک نئی طاقت کے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے سامنے اب دو چیلنجز ہیں۔ اول: کیا حالیہ کامیابی کے ثمرات کو سمیٹنے کے لیے عمران خان صلح جوئی کا مزاج اور رویہ پیدا کریں گے۔ دوم: کیا پی ٹی آئی پارلیمان کو مستحکم طریقے سے کردار ادا کرنے میں تعاون کرے گی اور ایک ذمے دار اپوزیشن کا رویہ اختیار کرے گی؟ موجودہ سچویشن میں پی ٹی آئی کا حال یہ ہے کہ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں۔ خود پی ٹی آئی کو نہیں معلو م کہ انہیںکیا کرنا ہے۔ عدالتوں کا رویہ بھی مستقبل کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ عدالتی گھوڑا کن میدانوں میں دوڑے گا اور کس سمت دوڑے گا اس کا بھی کچھ معلوم نہیں۔

موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم کی حیثیت اختیا ر کرچکے ہیں۔ ن لیگ کو تنہا حکومت بنانے کے لیے چالیس پچاس آزاد امیدواروں کا ساتھ چاہیے۔ یہ پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے کے مصداق ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ن لیگ کے بغیر حکومت بناسکے۔ پھر دونوں پارٹیوں پر اسٹیبلشمنٹ کا دبائو اور بے حد دبائو بھی ہوگا کہ جلداز جلد اتحاد کریں اور مخلوط حکومت تشکیل دیں، جو معاملات طے کرنا ہیں انہیں جلد ایک صورت دیں اس سے پہلے کہ پی ٹی آئی اپنے پتے کھیلے اور صدر علوی کوئی اور ہی ڈراما نہ کردیں کہ معاملات بگڑ جائیں۔ ورنہ پھر؟؟ اسٹیبلشمنٹ آگاہ کرے گی کہ کس طرف جانا ہے اور منجھی کہاں رکھنی ہے۔ بہر حال امید یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان مخلوط حکومت تشکیل پا جائے گی۔ آخر دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم کی حکومت بھی تو کامیابی سے چلائی ہے اب ’’پی ڈی ایم ٹو‘‘ تشکیل دینے اور چلانے میں کیا قباحت ہے جب کہ معاملہ اگلے پانچ سال کا ہے۔ اگر مخلوط حکومت تشکیل نہ پا سکی اور کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تو یہ ایک ایسی اندوہناک صورتحال ہوگی کہ سب ہل کر رہ جائیں گے۔ ملک بھی۔ پھر معاملات کس طرف جائیں گے؟ کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ہونی انہونی سب کچھ ممکن ہے۔

اگر پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنانے میں رکاوٹ ڈالی، محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کی اور خود تنہا حکومت بنانے کی کوشش کی جیسا کہ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان نے پختون خوا کے ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق میں حکومت بنانے کے مضبوط ارادے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں ایک سو پچاس نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ اگر وہ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں اور عدالتوں سے کچھ ایسے فیصلے حاصل کر لیتے ہیں جس کے بعد حکومت بنانا ان کا اولین حق بن جائے حالانکہ اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ ابھی ان کے پاس کوئی پارٹی نہیں ہے، اس مسئلے کو وہ کیسے حل کرتے ہیں اور بھی ایشوز ہیں لیکن بہر حال اگر عمران خان نے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا اور عدالتوں کا سہارا لے کر مخلوط حکومت بننے میں رکاوٹیں ڈالیں تو ان گنت بحران جنم لیں گے پھر سارا فوکس سیاست دانوں کی طرف سے ہٹ کر عدالتوں کی طرف چلا جائے گا پھر بحران گہرا اور بڑا گہرا ہوجائے گا۔
(جاری ہے)