الیکشن کے کاندھے پر سر رکھے سسکیاں لیتے لوگ

482

عوام کو انتخابی نشان سمجھ میں نہیں آئے گا، امیدواروں کا پتا نہیں چلے گا، پو لنگ اسٹیشن معلوم نہیں ہوسکے گا، ووٹ ڈالنا آسان نہیں ہوگا، کوئی ایک تصور بھی عوام نے درست ثابت نہ ہونے دیا۔ عوام کو سب کچھ سمجھ میں آگیا، عوام نے اپنا فیصلہ سب کو سمجھا دیا۔ الیکشن کے دوران جو کچھ ہوا عوام کو وہ بھی سمجھ میں آگیا الیکشن کے بعد جو کچھ ہوا عوام کو وہ بھی سمجھ میں آگیا۔
الیکشن سے پہلے عمران خان کو جو پیہم سزائیں سنائی گئیں ان میں یہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ حالیہ انتخابات میں عمران خان اور ان کی پارٹی کی کامیابی کی کوئی امید نہیں۔ لہٰذا عوام عمران خان کو ووٹ ڈالنے نہ آئیں۔ گرفتاریوں اور دھمکیوں میں بھی یہی پیغام موجود تھا۔ الیکشن سے پہلے لیول پلینگ فیلڈ کے حمایتی ہاتھ بھی تحریک انصاف سے دور اور بہت دور تھے۔ آر اوز کے تتر بتر ہونے کو بھی یہی سمجھا گیا کہ 2018 میں آر ٹی ایس کو بٹھا کر جو کچھ عمران خان کے حق میں کیا گیا اب ویسا ہی ان کے خلاف کیا جارہا ہے۔ گمان یہی تھا کہ الیکشن کا میدان جہاں اور جب بھی سجے گا عمران خان محض ایک یاس کی مانند یاد رکھے جائیں گے اور بس۔
الیکشن نتائج پر شکوک وشبہات کے جو گہرے سائے نظر آرہے ہیں ان کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ رات بارہ ایک بجے تک دو چار پانچ دس فی صد نتائج اعلان کیے گئے جن میں بیش تر نتائج میں تحریک انصاف آگے جارہی تھی۔ ن لیگ ان سے پیچھے تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ صبح تک پی ٹی آئی کے انڈیپنڈنٹ سب کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ پانچ چھے گھنٹے بعد جب نتائج دوبارہ روانی سے آنا شروع ہوئے تو صورتحال بدلی ہوئی تھی۔ جب لوگوں نے صبح اٹھ کر ٹی وی کھولا تو حالات ایک سو اسّی ڈگری کا زاویہ لے چکے تھے۔ معاملہ یک طرفہ نہیں رہا تھا۔ طرفین کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی تھی۔ تاہم شبہات اس وقت تک تناور درخت بن چکے تھے۔ جب کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی اس بدانتظامی کی کوئی مناسب وجوہ نہیں دی گئی ہیں۔
2013 میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 53.5 فی صد تھا 2018 میں 51فی صد کے قریب تھا جب کہ اس مرتبہ ٹرن آئوٹ 48فی صد قراردیا جارہا ہے جب کہ امید یہ تھی کہ دو کروڑ نئے ووٹرز کی آمد کی وجہ سے اس مرتبہ ووٹ ڈالنے کا تناسب زیادہ رہے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ الیکشن سے پہلے جو سروے سامنے آرہے تھے وہ 60فی صد ٹرن آئوٹ کا امکان ظاہر کر رہے تھے۔ 2018 میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک 16.9ملین کے قریب تھا۔ اس مرتبہ بھی لگ بھگ پی ٹی آئی کو اتنے ہی ووٹ ملے۔ تمام تر زور لگانے کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آئی البتہ سیٹوں میں اضافہ ہو گیا۔ ن لیگ کو 2018 میں 12.9 ملین ووٹ ملے تھے اس مرتبہ 13.3 ملین۔ ان کا ووٹ بڑھا ہے لیکن سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز کے بارے میں جو توقعات ظاہر کی جارہی تھیں اس کے برعکس پی ٹی آئی کا ووٹر پارٹی نہ ہونے، انتخابی نشان نہ ہونے اور گہری مایوسی کے باوجود باہر نکلا اور اس نے بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیا۔ پختون خوا کا تو سب کو معلوم تھا لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی کے ووٹرزکی کارکردگی بہت زبردست اور متاثر کن تھی۔
عمران خان کو موجودہ کامیابی کے لیے اپوزیشن کی ان جماعتوں کا شکر گزار ہونا چا ہیے جنہوں نے پچھلے سال اپریل 2023 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ عمران خان عوامی پذیرائی کے اعتبار سے اس وقت پست ترین درجے پر اور ان کی حکومت بدنام ترین حکومت تھی۔ اگر اس وقت تین مہینے کے اندر الیکشن ہوجاتے تو عمران خان کی شکست یقینی تھی۔ لیکن اپوزیشن نے فوری الیکشن کروانے کے بجائے پی ڈی ایم کی حکومت تشکیل دے کر بدنامی کا ٹوکرا جو عمران خان کے سر پر تھا اپنے سر پر رکھ لیا۔ یہ حماقت کی وہ بلندی تھی جسے اپنانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
آئی ایم ایف کا وہ خطرناک اور عوام کی زندگی عذاب ناک بنانے کا مہلک ترین پروگرام جس کی بدنامی کا رخ عمران خان کی حکومت کی طرف ہونا چاہیے تھا اس بدنامی کا رخ پی ڈی ایم کی حکومت نے اچک کر اپنی طرف موڑ لیا۔ جس کے نتیجے میں پٹرول، بجلی، گیس اور ہر چیز کی قیمتوں میں وہ اضافہ ہوا کہ عوامی گالیاں اور بددعائیں سیلاب کی صورت پی ڈی ایم حکومت کے تعاقب میں نکل پڑیں جب کہ انہیں چار چھے مہینے کے بعد الیکشن میں جانا تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جو عوام کے لیے خوش کن ہوں جن سے عوام کی نظر میں حکومت کا امیج خوش گوار ہو۔ پی ڈی ایم کی حکومت اس کے برعکس روزانہ کی بنیادوں پر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑے بڑے بم عوام پر گرا کر یہ توقع رکھ رہی تھی کہ عوام ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے، انہیں الیکشن میں ووٹ دیں گے، احمق ترین شخص بھی ایسا نہیں سوچ سکتا ہاں مگر پی ڈی ایم کے اکابرین اور ن لیگ کے رہنما۔
عوام کو شکار کرکے، ہر سطح پر ان سے سفاک دشمنی کا مظاہرہ کرکے اسٹیبلشمنٹ کی طفیلی مخلوق بن کر اور اس کی چھائوں میں آئندہ الیکشن میں کامیابی کی تلاش پی ڈی ایم کے نظریہ کاروں کی وہ ایجاد تھی جس پر ماتم ہی کیا جاسکتا تھا۔ اس پر ’’ساڈی گل ہوگئی اے‘‘، ’’چوتھی واری فیر شیر‘‘ کے نعرے اور بڑے بڑے پولز میں عوامی پسندیدگی کے حیران کن بلند بانگ دعووں کی گونج الگ۔ اس شور شرابے میں پچھلے آٹھ دس مہینوں سے پی ڈی ایم کی حکومت کے ہاتھوں مایوسی کے جنگل میں پھنسی ہوئی اس عوام کو فراموش کردیا گیا جس کی نظر میں عمران خان پھر ہیرو بنتا جارہا تھا۔ میاں نواز شریف کی واپسی کو ایک ایسا قدم باور کیا اور کرایا گیا کہ ان کی آمد اور عوام کے دل میں ان کی محبت اور الفت نے ہوائوں کا رخ پھیردیا ہے اور اب پی ٹی آئی کے بجائے ن لیگ کی سمت ہوائیں چلنی شروع ہوگئی ہیں۔ عوام کے تمام زخم مندمل ہوگئے ہیں جو انہیں پی ڈی ایم کی حکومت سے پہنچے۔ وقت آنے پر عوام نے یہ حساب اس طرح چکادیا کہ ن لیگ کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔
الیکشن کے نتائج نے ن لیگ کے طرہ پیچ وخم کو اس طرح سیدھا کیا ہے وہ میاں نواز شریف جو الیکشن سے پہلے کہہ رہے تھے کہ ’’مخلوط حکومت کا نام نہ لو خدا کے واسطے۔ ایک پارٹی کو میجورٹی ملنا ضروری ہے۔ ملک کے مسائل حل کرنے ہیں تو ایک پارٹی کو پورا مینڈیٹ ملنا چاہیے تاکہ دوسروں پر اس کا دارومدار نہ ہو‘‘ مخلوط حکومت کی بات کرنے پر مجبور ہوگئے۔ میاں صاحب کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ اکثریتی حکومت میں ہی آزادی کے ساتھ بڑے فیصلے کرنا ممکن ہوتے ہیں۔ موجودہ نتائج یقینا ن لیگ کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہیں۔
ن لیگ کی عوامی رابطہ مہم پی ٹی آئی سے کئی نوری سال کی دوری ہے۔ پی ٹی کا ووٹر وہ ہے جس نے نائن الیون کے جھوٹ کو سچ میں ڈھلتے دیکھتے ہوئے جنم لیا اور پروان چڑھا ہے۔ اب وہ کسی سچ کو بھی سچ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنی معلومات اخبارات کی خبروںکالموں اداریوں اور ٹی وی ٹاک شوز کے مبصرین سے اخذ نہیں کرتا بلکہ اس کی معلومات کا منبع چند انچ کا وہ موبائل فون ہے جو اس کی مٹھی میں بند ہے۔ ٹک ٹاک، پوڈ کاسٹ، ورچوئیل جلسے، سوشل میڈیا نے انفار میشن کا جو جہاں تخلیق کیا ہے پاکستان میں اس پر عمران خان کی گرفت ہے۔ عمران خان کی اس نسل پر حکومت ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے اس پروپیگنڈے کو سنتے سنتے پروان چڑھی ہے کہ ’’دونوں چور ہیں‘‘، ’’نواز شریف اور زرداری چور چور چور‘‘۔ کئی عشروں اور دہائیوں میں راسخ کی گئی یہ بات نوجوان نسل کے ذہن میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اب اس کو مٹانے میں بھی عشرے ہی درکار ہیں۔
(جاری ہے)