ظلم کے نظام پر لعنت

478

8فروری کو پاکستان میں 12ویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات میں تقریباً چھے کروڑ ووٹر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور 48فی صد ٹرن آئوٹ ظاہر کیا جارہا ہے۔ انتخابات کے دوران ملک بھر میں موبائل سروس اور انٹر نیٹ سروس کو بند کردیا گیا جس کی وجہ سے ووٹر کو ووٹ ڈالنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بہت بڑی تعداد میں ووٹر اپنا ووٹ ڈالے سے بھی محروم رہے۔ ان تمام زیادتیوں کے باوجود اچھے ماحول میں ووٹ ڈالے جارہے تھے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی جانب سے پولنگ اسٹیشنوں پر حملے اور پولنگ بکس کی توڑ پھوڑ شروع کی گئی۔ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر کئی مقامات پر بوریوں میں جعلی ووٹ پکڑے گئے سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے اس پر سخت احتجاج کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔ کراچی میں اکثریت پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی کو ووٹ دے رہی تھی۔ پولنگ اسٹیشنوں پر تمام ہی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ موجود تھے کہ اچانک رات بارہ بجے کے بعد ایم کیو ایم جس کی چوتھی اور پانچویں پوزیشن تھی اس کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ مصطفی کمال نے جب متحدہ کی 16نشستوں کی کامیابی کی بات کی تو تمام ہی لوگوں نے اس پر حیرانی کا اظہار بھی کیا اور مذاق بھی اڑایا لیکن کسے خبر تھی کہ جھاڑو پھیردی گئی ہے اور عوامی مینڈیٹ پر قبضہ ہوگیا ہے۔ نتائج روک دیے گئے اور 28گھنٹوں کے بعد رزلٹ کا اعلان کیا گیا جس میں الیکشن کمیشن نے 5فی صد ووٹ لینے والی ایم کیو ایم کو ایک بار پھر کراچی کے شہریوں پر زبردستی مسلط کردیا اور 17سیٹوں پر ایم کیو ایم کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔

کراچی کے شہری حیران پریشان کہ اتنی مشکل اور قربانیوں کے بعد کراچی کی عوام نے بھتا خوری اور بوری بند لاشوں کی سیاست سے نجات حاصل کی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے متحدہ کو یہ سیٹیں دیں جس پر اہل کراچی سراپا احتجاج بن گئے۔ فارم 45کے مطابق فارم 47نہیں ہے اور فارم 47جعلی طریقے سے چھاپا گیا اور فارم 45اور فارم 47آپس میں مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں آر او کی جانب سے پیسے بٹورنے کے بھی الزامات لگائے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے دفتر صدر میں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی نے احتجاجی دھرنا بھی دیا اور عوامی مینڈیٹ اور ووٹ کے حق پر ڈاکہ ڈالے جانے کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اور یہ احتجاج کراچی ہی نہیں بلکہ پشاور، باجوڑ، چمن، سکھر میں بھی کیے گئے۔

ملک بھر میں سیاسی جماعتوں نے اس جعلی الیکشن کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ان انتخابات میں 47ارب روپے خرچ ہوئے اس سلسلے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا اور قرض لے کر الیکشن کرائیں گئے لیکن جو کچھ ان انتخابات میں ہوا اس پر پوری دنیا میں سنگین تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ امریکا، برطانیہ نے ان انتخابات کی شفافیت پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور حالیہ انتخابات کے بعد ملک میں استحکام ہوتا مشکل نظر آرہا ہے۔

جماعت اسلامی جس نے کراچی میں بھرپور انتخابی مہم چلائی اور کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات کی طرح ان قومی انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کے نشان ترازو کو ووٹ دیا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مخصوص مفادات کی ظاطر ان نتائج کو تبدیل کردیا جس پر اہل کراچی سخت برہم ہیں اور اسے کراچی کو ایک بار پھر تباہی کے راستے میں ڈالے جانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تاریخ کی بدترین دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار اور مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کراچی میں ایم کیو ایم کو مسلط کرنے کی کوششوں کو قبول نہیں کیا جائے گا ہمیں ہماری جیتی ہوئی سیٹیں واپس ملنی چاہییں ورنہ ہم قومی اتحاد کی طرح تحریک چلائیں گے۔ ماضی میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کے مینڈیٹ کوتسلیم نہ کر کے پاکستان کے ایک بازو کو جدا کردیا گیا۔ 1974 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی دھاندلی اور پھر قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں ملک ایک بحران سے دوچار ہوا اور فوج کو آنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس انتخابات میں بھی کراچی سے لیکر خیبر تک عوامی احتجاج شروع ہوگیا ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں جو کھیل کھیلا گیا ہے اس پر ہر ذی شعور سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ موبائل اور انٹر نیٹ کی بندش سے ایک جماعت کا ووٹ کم کیا گیا۔ اس طرح کی ہیرا پھیری سے ملک میں افراتفری اور انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بدترین دھاندلی عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ پاکستان جس نازک حالات سے گزر رہا ہے ان حالات میں ملک کسی بھی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

9مئی کے واقعہ کا ہر ذی شعور سخت مذمت کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن اس کی آڑ میں کسی بھی پارٹی کو دیوار سے لگانا کسی بھی طرح معقول نہیں ہے۔ اس سے نوجوانوں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور نفرت کی سیاست کو تقویت پہنچ رہی ہے۔ قومی انتخابات کا غیر منصفانہ انعقاد ملک کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے لیے ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ تنظیم کو شہر پر زبردستی مسلط کرنا اور من پسند نتائج کے حصول کے لیے اس طرح کے انتخابات ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ کراچی پاکستان کی کا معاشی حب ہے اور یہاں امن اور سکون بڑی مشکل کے ساتھ قائم ہوا ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے پاکستان کی شہ رگ کو ایک بار پھر آگ اور خون کی دلدل میں دکھیلنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔ اس طرح کی دھاندلی اور ڈاکہ ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے اور اس طرح کا نظام پاکستان کو مزید بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں آج ہر شخص اس طرح کے ظالمانہ نظام پر لعنت بھیج رہا ہے اور اسے پاکستان کے امن وسلامتی کے لیے زہر قاتل قرار دے رہا ہے۔