ووٹ پر سب سے بڑا ڈاکا

508

۔8 فروری کو عام انتخابات بڑی حد تک پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ انتخابی نتائج بھی سامنے آگئے ہیں۔ ہم ان نتائج کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہیں گے۔ ان انتخابات میں ووٹ پر ڈاکا ڈالنے کی جو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے ہم اس کا ذِکر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ واردات کسی اور نے نہیں خود الیکشن کمیشن نے کی ہے جس کی ذمے داری ہی یہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کو یقینی بنائے اور ووٹر کو ایسی سہولت فراہم کرے کہ وہ آسانی سے ووٹ کا حق استعمال کرسکے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹر کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے اسے دانستہ سہولت سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور وہ بلامبالغہ لاکھوں ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے میں کامیاب رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ مجرمانہ واردات کیسے کی ہے؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پچھلے تمام انتخابات میں ہر پاکستانی شہری کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ جہاں مقیم ہوتا تھا وہیں انتخابی فہرست میں اپنا نام درج کروا کے پولنگ کے موقع پر اپنا شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال سکتا تھا۔ شناختی کارڈ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہے اور پاکستان میں اپنا حق رائے دہی استعمال کررہا ہے۔ شناختی کارڈ میں جو پتا درج کیا جاتا ہے آدمی ہمیشہ اس جگہ مقیم نہیں رہتا۔ اسے روزگار یا کاروبار یا کسی اور وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ بار بار نہیں بنوائے جاتے۔ پرانے ہی چلتے رہتے ہیں اور پتا تبدیل ہونے کے باوجود شناختی کارڈ کی قانونی حیثیت کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماضی میں یہی طریقہ رہا ہے کہ پاکستانی شہری جہاں مقیم ہوں، انتخابی فہرست میں نام درج کرواکے اسی جگہ ووٹ ڈالتے رہے ہیں، لیکن حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تمام شہریوں کے ووٹ ان کے شناختی کارڈ کے پتے پر منتقل کرکے لاکھوں شہریوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کردیا ہے۔
اس کی مثال ہم خود اپنی ذات سے دیتے ہیں۔ ہم نے اپنا شناختی کارڈ لاہور میں بنوایا تھا جس پر لاہور کا پتا درج تھا۔ پھر ہم بسلسلہ روزگار راولپنڈی منتقل ہوگئے۔ انتخابات کا موقع آیا تو ہم نے انتخابی فہرست میں نیا پتا درج کرواکے اپنا ووٹ بنوالیا اور جہاں مقیم تھے انتخابات کے موقع پر وہیں اپنا ووٹ ڈالا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہم اپنے بیٹے کے ہمراہ کہوٹا منتقل ہوگئے یہاں بھی ہم نے گزشتہ 2 انتخابات بھگتائے لیکن اب کی دفعہ ہمارا ووٹ لاہور منتقل کردیا گیا کہ شناختی کارڈ پر مستقل پتا لاہور کا درج تھا۔ اِس طرح ہمیں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا گیا۔ یہ واردات ایک نہیں لاکھوں افراد سے دانستہ کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس واردات کا مقصد ایک کالعدم جماعت کے آزاد امیدواروں کو ووٹ سے محروم کرنا تھا لیکن اس سے تمام سیاسی جماعتیں متاثر ہوئیں۔ ہم اپنا ووٹ جماعت اسلامی کے امیدوار کو دینا چاہتے تھے نہیں دے سکے، ہمیں بے شمار لوگوں نے بتایا کہ ان کا ووٹ شناختی کارڈ کے پتے پر منتقل کردیا گیا تھا، اس لیے ووٹ دینے سے محروم رہے۔ یہ واردات بھی کی گئی کہ شناختی کارڈ کی بنیاد پر ایک ہی خاندان کے افراد مختلف شہروں میں بکھیر دیے گئے۔ مثلاً بیوی کا شناختی کارڈ شادی سے پہلے ملتان کا تھا تو اسے ملتان بھیج دیا گیا، جبکہ شوہر کو لاہور حالانکہ دونوں اب بسلسلہ روزگار کہوٹا میں مقیم تھے اور یہاں اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے تھے لیکن اب کی دفعہ وہ اس حق سے محروم رہے، جن لوگوں نے اپنے شناختی کارڈ کے پتے پر ووٹ ڈالا انہیں بھی پولنگ اسٹیشنوں کی تلاش میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے ووٹ دور دراز اور اجنبی مقامات پر پھینک دیے گئے۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر اس لیے کیا گیا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم سے کم رہے۔
الیکشن کمیشن نے ووٹروں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ چیف الیکشن کمشنر کی تائید اور منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایک صاحب تو اتنے برہم تھے کہ ان کا مطالبہ تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کو نہ صرف برطرف کیا جائے بلکہ پاکستانیوں کی شہریت کا مذاق اُڑانے پر اسے گرفتار کیا جائے اور اس پر مقدمہ چلایا جائے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر سے اوپر کوئی اتھارٹی ہے تو اسے ضرور اس مطالبے پر غور کرنا چاہیے۔ پولنگ اور گنتی کے موقع پر جو دھاندلی کی گئی وہ ایک الگ واردات ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات سے دو دن پہلے ہی اخبارات میں شہ سرخی اشتہار کے ذریعے نواز شریف کے وزیراعظم ہونے کے ’’عوامی فیصلے‘‘ کا اعلان کردیا تھا، پولنگ ہوئی تو میاں نواز شریف لاہور اور مانسہرہ دونوں حلقوں سے ہار رہے تھے۔ مانسہرہ سے تو ان کی شکست کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا لیکن لاہور کا نتیجہ روک لیا گیا اور کسی اخبار نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ سنا ہے کہ نواز شریف پولنگ کے روز رات 11 بجے تقریر کرنے والے تھے لیکن ان کی تقریر دھری رہ گئی۔ لاہور میں ان کے مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں جو ان دنوں جیل میں ہیں۔ جہاں مداخلت نہیں ہوئی وہاں آزاد امیدواروں کے مخالفین کا صفایا ہوگیا۔ پرویز خٹک کا دعویٰ تھا کہ وہ خیبرپختون خوا میں آزاد امیدواروں کا صفایا کردیں گے، رزلٹ آیا تو ان کے پورے خاندان کا صفایا ہوگیا۔ مزید ردعمل سے بچنے کے لیے وہ جان بچا کر اسلام آباد آگئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
میاں نواز شریف انتخابی نتائج آنے سے پہلے اُونچی ہوائوں میں تھے۔ انہوں نے اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ مخلوط حکومت کی تو بات ہی نہ کریں، مسلم لیگ (ن) تنہا حکومت بنائے گی، اب نتائج آنے کے بعد وہ مخلوط حکومت کے لیے پیپلز پارٹی سے مذاکرات کررہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری نے کرتب دکھایا تو بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔ رہے آزاد امیدوار تو ان کے یکجا ہونے اور حکومت بنانے کا کوئی امکان نہیں ہے، ان کی بولی لگے گی، جو زیادہ بولی دے گا وہ انہیں لے جائے گا۔ جن طاقتوں نے ان لوگوں کو بکھیرا ہے وہ انہیں کب اکٹھا ہونے دیں گی، ہاں وہ ہارس ٹریڈنگ کی ضرور حمایت کریں گی۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ یہ طاقتیں تو پاکستان کو یوں بھی غیر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں، الیکشن کمیشن اور مقتدرہ نے غیر شفاف انتخابات کراکے ان کی خواہش کو مزید مستحکم بنادیا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ورنہ ہم تو اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔