امریکی ورلڈ آڈر اور اسلام کا نفاذ (آخری حصہ)

451

امریکا کے ظالمانہ بین الاقوامی نظام کو چیلنج کرنا اور اس کے مقابل آنا تو دور کی بات ہے تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح پاکستان کے حکمران بھی اس کے خلاف سوچنا تک گوارا نہیں کرتے۔ جب اندرون ملک امریکی اقدامات کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت جنم لیتی ہے تو وہ امریکی طاقت اور قوت کو بہانے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب تک ایک ایسی قیادت برسراقتدار نہیں آتی جو براہِ راست اور کھلم کھلا امریکی قیادت میں چلنے والے بین الاقوامی آرڈر کو چیلنج کرے، ہماری صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یقینا ہم اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور معاشی ترقی اور خوشحالی بھی چاہتے ہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک امریکی قیادت میں چلنے والے بین الاقوامی آرڈر کو چیلنج نہ کیا جائے۔ امریکی ورلڈ آڈرکو چیلنج کیے بغیرکسی بھی ملک میں حقیقی اسلامی حکومت نہ تو قائم ہوسکتی ہے اور نہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ امریکی ورلڈ آڈر کو تسلیم کیا جائے اس پر عمل بھی کیا جائے اور اس کے سائے تلے ایک اسلامی حکومت قائم ہو کر پنپ سکے۔ 2013 میں مصر میں ایک اسلامی جماعت کو عظیم اکثریت کے نتیجے میں حکومت ملی۔ اس نے سرمایہ دارانہ معاشی نظام، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ، آئی ایم ایف سب کے بارے میں خاموشی اختیار کی لیکن اس کے باوجود ایک سال سے زائد یہ حکومت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور امریکا نے فوج کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ 1996 میں افغانستان میں عسکری جدوجہد کے ذریعے ’’اسلامی امارت‘‘ کا قیام ہوا، لیکن امریکی ورلڈ آرڈر کو چیلنج نہیں کیا گیا، نتیجتاً 2001 میں اس پر حملہ کر کے اسے ختم کردیا گیا۔ اور اب 2021، میں امریکا کو شکست دے کر حکومت حاصل کر لینے کے باوجود امریکا افغان طالبان کو چاروں جانب سے گھیرے ہوئے ہے اور اس کے لیے ہر جگہ، ہر فورم اور ہر محاذ پر مشکلات پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ طالبان حکومت نے امریکی ورلڈ آڈر کے بارے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے اور اس کے عالمی آرڈر کو چیلنج نہیں کرتی۔ امریکا دنیا میں اور عالم اسلام کے ساتھ کچھ بھی کرتا رہے طالبان حکومت کہیں بھی امریکا کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ، آئی ایم ایف کی مزاحمت سے مکمل طور پر گریزاں ہے۔ امریکی ورلڈ آڈر کے اندر رہ کر اگر کوئی ملک ترقی کرتا ہے تو اسی ورلڈ آڈر میں ہی کچھ ایسے اہتمام اور لیور بھی رکھے گئے ہیں کہ جب چا ہیں یہ ترقی معکوس سمت میں سفر کرنے لگتی ہے۔ جو ترقی کے اسباب قرار دیے جاتے ہیں وہی اسباب زوال کی وجہ ٹھیرتے ہیں۔

مہاتیر محمد ایشیا کا مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں: ’’آج اچانک اگر مشرقی ایشیائی حکومتوں پر الزام لگایا جائے کہ ان کے اخراجات بہت زیادہ تھے جن کا استعمال ہوش مندی سے نہ کیا جارہا تھا تو ایسے الزامات کی حقیقت جاننا کسی عام آدمی کے لیے بھی کوئی مشکل بات نہیں ہے، اب ہمیں وہ تمام باتیں بتائی جارہی ہیں جو ہماری معیشتوں کو کمزور کرنے اور سرمایہ داروں کا اعتماد کھونے کا باعث بنیں۔ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہماری پالیسیاں غلط تھیں اور ہمارے ادارے کمزور تھے اور یہ سب باتیں وہی لوگ کررہے ہیں جو چند ماہ قبل ان ہی حوالوں سے ہماری تعریف کیا کرتے تھے‘‘۔

انڈو نیشیا اس کی بڑی مثال ہے۔ 1990 کی دہائی میں انڈونیشیا کا ایشیائی ٹائیگر بننے کا خواب ملیامیٹ کردیا گیا کیونکہ اس نے جو بھی ترقی حاصل کی تھی وہ اسی امریکی ورلڈ آرڈر کے تحت کی تھی اور جب امریکا نے چاہا اسی ورلڈ آرڈر کو استعمال کر کے اسے ایشیائی بلی میں تبدیل کردیا۔ ہم مسلمان حقیقی آزادی اور ترقی اسی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں جب ہم موجودہ امریکی عالمی آرڈر کو چیلنج کریں گے اور اس کی جگہ اسلامی عالمی آرڈر قائم کریں گے۔

رسول اللہؐ جب مختلف عرب قبائل سے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے نصرۃ مانگنے جاتے تھے تو جب تک کوئی قبیلہ یہ قبول نہیں کرتا تھا کہ وہ اس دین کے قیام اور توسیع کے لیے پوری دنیا سے لڑنے کے لیے تیار ہے، رسول اللہؐ ان کی نصرہ کو قبول نہیں فرماتے تھے۔ اس کا ثبوت بیعت عقبہ ثانی ہے کہ جب انصار جمع ہوئے تو سیدنا عباس بن عبادہ بن نضلہ نے کہا: ’’تم لوگ جانتے ہو کہ ان سے (اشارہ نبیؐ کی جانب تھا) کس بات پر بیعت کررہے ہو؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ اس پر آپؓ نے کہا: ’’تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کررہے ہو‘‘۔ یعنی صرف عربوں سے نہیں پوری دنیا سے جنگ کرنے پر بیعت کررہے ہو۔ کیونکہ اسلام کی دعوت تو پورے عالم پر غالب ہونے کے لیے ہے، یہ کوئی وطنی یا علاقائی دعوت نہیں ہے۔

اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے‘‘۔ (التوبۃ، 9: 33)

٭تو یہ بات ثابت ہوئی کہ ہماری موجودہ صورتحال امریکی ورلد آرڈر میں رہتے ہوئے تبدیل نہیں ہوسکتی۔

٭ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اسلام کے نفاذ کے لیے ہمیں امریکی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنا ہوگا ورنہ کسی بھی ملک میں اسلام کے نفاذ کی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہو اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

٭ اسلام اپنے سوا دنیا کے کسی ورلڈ آڈر کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی امریکی ورلڈ آڈر کی چھتری تلے رہ کر اسلامی ورلڈ آڈر کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کو ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے نافذکر کے اسے عالمی آرڈر بنانا ہوگا۔

٭ اس سے کم کوئی بھی عمل ہمیں امریکی ورلڈ آرڈر کا غلام بنائے رکھے گا اور ہمارے لیے محض وقت کا ضیاع ہوگا۔