قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

189

صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے توایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرامگاہ!۔ رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقینا ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ (سورۃ الکہف:29تا30)

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے اس وقت فرمایا جب کہ ایک شخص (وعظ کہنے یا خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی خاطر) بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے چنانچہ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اپنی تقریر میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیتے تو بے شک وہ تقریر سننے والوں کے حق میں بہت بہتر ہوتی ہے میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سمجھ لیا ہے یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تقریر میں گفتگو میں اختصار کروں حقیقت یہ ہے کہ مختصر تقریر بہتر ہے۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ)