8فروری کے انتخاب میں کراچی کا موڈ کیا ہوگا؟

527

جب ہم کراچی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی خاص زبان بولنے والوں کی بات ہو رہی ہے کراچی کو ایک زمانے سے منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک تو کراچی اب ایک چھوٹی سی دنیا ہے جس میں دنیا کے اکثر ممالک کے لوگ رہتے ہیں اس شہر میں بڑی تعداد میں برما کے برمی بھی ملیں گے بنگلا دیش کے بنگالی بھی ملیں گے، افغانستان کے افغانی بھی ملیں گے، ایران کے بھی لوگ ہوں گے اس کے علاوہ اور ملکوں کے باشندے بھی کچھ کاروبار کے حوالے سے کچھ تعلیم کے سلسلے میں مختصر تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے ہر صوبے اور صوبوں کے ہر شہر اور گائوں کے لوگ ملیں گے۔ پچھلے دس برسوں میں سرائیکیوں کی بہت بڑی تعداد روزگار کے حوالے سے کراچی میں آئی ہے یہ بھی بات سننے میں آتی ہے جو حقیقت ہے کہ کراچی میں پٹھانوں کی تعداد پشاور سے زیادہ ہے کراچی میں 90فی صد چائے کے ہوٹل پٹھان چلا رہے ہیں اسی طرح کپڑے کی تجارت اور ٹرانسپورٹ میں بھی پشتو اسپیکنگ کی بہت بڑی تعداد ملے گی۔ آج صبح ایک ہوٹل میں چائے پی رہا تھا تو ایک صاحب نے بتایا کہ ایران میں جو لوگ مارے گئے ہیں وہ ہمارے علاقے علی پور کے ہیں اس میں ہمارے دور کے رشتہ داروں میں دو سگے بھائی بھی ہلاک ہوگئے ایک اسی دن مرگیا تھا دوسرا بھائی جو زخمی تھا وہ بھی دو روز پہلے مرگیا۔ قیام پاکستان کے بعد سے 11سال تک یعنی1958 تک جب تک یہ ملک کا دارالحکومت رہا ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے یہ اردو اسپیکنگ کا شہر کہلاتا تھا جو مہاجرین بھارت سے ہجرت کرکے آئے تھے ان میں جو تعلیم یافتہ لوگ تھے انہوں نے اس ملک کا نظم و نسق سنبھالااور بڑے نامساعد حالات میں دفاتر میں فرش پر ٹاٹ پر بیٹھ کر کام کیا مہاجرین نے اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم دلائی پھر یہ لوگ میرٹ کی بنیاد پر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں روزگار سے لگتے رہے دوسری طرف کراچی میں جو اقتصادی ترقی ہو رہی تھی اس کی وجہ سے ملیں اور فیکٹریاں قائم ہوئیں ٹیکسٹائل کی صنعت نے بہت تیزی سے ترقی کی منزلوں کو عبور کیا پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کی طرف آئے اور شہر کی آبادی بڑھتی گئی۔

1970 تک معاملات کچھ بہتر چلتے رہے اس وقت تک کراچی میں دینی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل تھا انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے جب صوبہ سندھ میں کوٹا سسٹم نافذ کیا اس وقت ہی سے کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ تعلیم اور روزگار کے حصول میں حق تلفی کا آغاز ہوا دیہی اور شہری کی تقسیم ملک کے کسی اور صوبے میں نہیں تھی یہ صرف سندھ میں ہوا کہ صوبائی ملازمتوں میں 60فی صد دیہی علاقوں اور 40فی صد شہری علاقوں کے لیے کوٹا مختص کیا گیا آئین میں یہ کوٹا دس سال کے لیے تھا 1983میں اس کو ختم ہوجانا تھا لیکن جنرل ضیاء نے اس میں دس سال کا اضافہ کردیا اس کی وجہ سے کراچی کے ذہین نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی اس محرومی کے ردعمل میں 1986 میں ایم کیو ایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ وجود میں آئی بعد میں یہ متحدہ قومی موومنٹ میں بدل گئی ایم کیو ایم جب سے لے کر اب تک ہر حکومت کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں اقتدار میں شریک رہی اس درمیان تین تین مرتبہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور ایک مرتبہ تحریک انصاف کی حکومتیں رہیں آخر میں 16ماہ کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت سمیت یہ سب حکومتوں میں شامل رہے، نشستوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود ان کو ہمیشہ یہ پوزیشن حاصل رہی کہ طاقت کا توازن ان کے پاس رہا یہ جس پارٹی

کے ساتھ جاتے اس ہی کی حکومت بنتی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اتنا بھاری بھر کم مینڈٹ رکھنے کے باوجود اپنے دو اہم بنیادی مطالبات کسی بھی حکومت سے نہیں منوا سکی ایک تو کوٹا سسٹم کا خاتمہ دوسرے بنگلا دیش سے بہاریوں کی واپسی۔ یہ اپنے دوسرے مفادات حاصل کرتے رہے ان کے ہر عہدے دار لکھ پتی اور کروڑ پتی بن گئے ہوٹل میں بیراگیری کرنے والے ارب پتی بن گئے لیکن کراچی کا عام نوجوان تعلیم اور روزگار سے محروم ہوتا چلا گیا، یہی نہیں ہو اب بلکہ اس تنظیم نے کراچی کے نوجوانوں سے کتابیں لے کر ان کے ہاتھ میں ہتھیار پکڑا دیے پھرکبھی پٹھانوں اور پنجابیوں سے کبھی سندھیوں اور بلوچوں سے خونریز تصادم کرایا اور آخر میں مہاجر کو مہاجر سے لڑوادیا اس بے فیض تصادم میں 25ہزار سے زائد نوجوان تاریک راہوں میں مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ پر اتنے مقدمات قائم ہوئے کہ ان کی زندگیاں برباد ہو گئیں۔

جس تنظیم کو شہر کراچی کے باسیوں نے جھولی بھر کر ووٹ، نوٹ اور اپنی دعائیں دیں اسی تنظیم نے اس شہرکو بوری بند لاشوں اور ہڑتالوں کا شہر بناکر رکھ دیا تین تین دن کی ہڑتالیں جو صرف کراچی کے ان علاقوں میں ہوتیں جہاں مہاجروں کی تعداد زیادہ ہوتی اس طرح سب سے زیادہ معاشی نقصان مہاجرں کا ہی ہوتا رہا دوسری طرف پیپلز پارٹی جو ہر دفعہ ایم کیو ایم کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئی اس نے پچھلے پندرہ برسوں میںکراچی کے نوجوانوں کا اس بری طرح استحصال کیا کہ کوٹا سسٹم بھی شرما گیا اس سسٹم کے تحت جو تھوڑی بہت اشک سوئی ہوتی وہ بھی اس ظالم حکومت نے ختم کردیا کراچی میں جو آسامیاں خالی ہوتیں کراچی کا جعلی ڈومیسائل بنا کر اندرون سندھ کے نااہل لوگوں سے اُسے پر کردیا جاتا ان کے دور حکومت میں میرٹ کا قتل عام کیا گیا، کراچی کے پولیس اور دیگر محکموں میں جو جگہیں خالی ہوتیں اندرون سندھ سے ان متعلقہ محکموں سے سندھ کے افراد کا کراچی میں ٹرانسفر کردیا جاتا اور وہاں جو جگہ خالی ہوتیں اندرون سندھ کے ایم این اے اور ایم پی اے اپنے ووٹروں کو ان جگہوں پر رکھ لیتے آپ کراچی کے کسی بھی محکمے میں چلے جائیں اس میں کراچی کے لوگ کم اور اندرون سندھ کے لوگ زیادہ ملیں گے یہ وہ زیادتیاں ہیں جن کا کئی بار خود ایم کیو ایم نے اپنی پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانات میں ذکر کیا ایک بیان جو میں نے خود سنا تھا اس میں ایم کیو ایم کے عہدیداروں نے کہا کہ سندھ سیکرٹریٹ کراچی کو سندھی سیکرٹریٹ بنا دیا گیا ہے حال ہی میں دو اہم اشوز سامنے آئے ہیں ایک تو یہ کہ اردو یونیورسٹی کے پرنسپل کے تقرر کے لیے تلاش کمیٹی نے جن ناموں کو شارٹ لسٹ کیا ہے اس میں ایک بھی کراچی کا فرد نہیں ہے دوسرا ظلم یہ ہوا کہ انٹر بورڈ کراچی میں جان بوجھ کر 60فی صد سے زائد انٹر سال اول کے طالب علموں کو فیل کردیا گیا ایک بے چینی ہے جو کراچی کے شہریوں میں پائی جاتی ہیں ایسے میں پچھلے پانچ برس میں اللہ تعالیٰ نے حافظ نعیم الرحمن کی شکل میں کراچی کے شہریوں کو ایک ایسا رہنما دیا ہے جس نے کراچی کے شہریوں اور نوجوانوں کی محرومیوں کو ایڈریس کیا ہے بجلی کے مسئلے میںکے الیکٹرک کا نیپرا سے لے کر عدالتوں تک ہر جگہ اس کا تعاقب کیا کچھ مسئلہ حل ہوا کچھ کے بارے میں عدالتی فیصلوں کا انتظار ہے گیس کے مسئلے پر آواز بلند کی، انٹربورڈ میں جو زیادتی ہوئی ہے طلبہ کے والدین کے ساتھ بورڈ آفس کے باہر دھرنا دیا اب وزیر اعلیٰ ہائوس کے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کی جو کارکردگی ہے اس کو بتانے کے لے پوری ایک کتاب درکار ہے بحریہ ٹائون میں سیکڑوں افراد کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی ملک ریاض تین بار ادارہ نورحق آئے اور مذاکرات کے ذریعے اربوں روپے لوگوں کو واپس دلائے گئے۔

اورنگی ٹائون کے بہاریوں اور کراچی کے پٹھانوں کے شناختی کارڈ کے مسائل تھے جو نادرا کے حکام سے مسلسل مذاکرات کرکے 80فی صد سے زائد لوگوں کے شناختی کارڈ کے مسائل حل کرائے حافظ نعیم الرحمن نے صحیح معنوں میں بہت کچھ ڈیلیور کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی کے شہریوں کے دلوں میں حافظ صاحب نے اپنی جگہ بنائی ہے اور اب جو ان کی بلدیاتی ٹیم آئی ہے اس نے اختیارات اور بجٹ نہ ہونے کے باوجود اس مختصر عرصے اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ان اسباب اور وجوہات کی بنا پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کراچی کے لوگوں کا آنے والے انتخاب میں حافظ نعیم الرحمن کی ٹیم کو کامیاب کرانے کا موڈ ہے اور جیسا کے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم کراچی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئیں گے۔ ان شاء اللہ