ـ5 فروری: نئی راہیں تلاش کرنے کا متقاضی

468

5 فروری کا دن کشمیر کے ساتھ پاکستانیوں کی انمٹ لازوال محبت کا وہ استعارہ ہے جو اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ یہ دن منانے کی اپیل محترم جناب قاضی حسین احمد نے کی تھی تاہم میرے والد محترم جناب پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم نے یہ تجویز محترم قاضی حسین احمد کے رو برو پیش کی تھی، جسے قاضی صاحب نے بہت ہی پسند کیا اور اس خیال کو آگے بڑھایا آج تک یہ دن منایا جاتا ہے، اس دن کے آنے سے پہلے ہی کشمیر میں اور پاکستان میں آباد لوگ یوم یکجہتی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے کشمیر کا خطہ پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سیالکوٹ تا وادی نیلم تک سیکڑوں میل لمبی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں۔ صدیوں سے جہلم تا سری نگر اور سری نگر تا راولپنڈی کوہالہ روڈ دونوں خطوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ سری نگر تا چلاس کی دشوار گزار سڑک بھی یہی کام انجام دیتی آرہی ہے۔ سیالکوٹ سے جموں تو ہے ہی صرف آدھ گھنٹے کا راستہ، ان جغرافیائی رابطوں کے علاوہ جو چیز دونوں یعنی کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے وہ ہے دینی یگانیت دونوں میں اسلام کا رشتہ باقی سب رشتوں سے افضل ہے۔ 1947ء میں بھارت نے نہایت چالاکی سے مہاراجا کشمیر کو گمراہ کیا اپنے ہندوتوا کے جال میں پھنسایا ورنہ مہاراجا کشمیر تقسیم برصغیر کے اصولوں کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا اسے صرف اپنی حکمرانی کی فکر تھی۔ پاکستان کے قائدین کی طرف سے اس کی حکمرانی برقرار رکھنے کا معاملہ بھی قابل قبول تھا۔ مگر نہرو، شیخ عبداللہ اور پٹیل کی سازشوں کے جال میں پھنسا مہاراجا اس وقت گھبرا گیا۔ جب مجاہدین نے اس کی طرف الحاق کے اعلان میں تاخیر پر کشمیر پر چڑھائی کر دی تو خوفزدہ مہاراجا دہلی جا چھپا اور بھارت نے فوری طور پر ریاست جموں و کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں۔ اس کے بعد سے آج تک اس خطے کے باسی بھارت کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس تحریک میں آج تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ مگر تمام تر سفاکانہ کارروائیوں کے باوجود بھارت کے نو لاکھ فوجی ان کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔ وہ آج بھی بھارت سے آزادی کے لیے کشمیر کے پہاڑوں، جنگلوں، شہروں اور دیہات میں جارح فوجیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ 2019ء میں بھارت نے جس طرح عالمی قوانین اور عالمی اداروں کی منظور شدہ قراردادوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارت آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر کے پہلے اپنا حصہ بنایا اور اپنی ریاست قرار دیا وہاں غیر کشمیری ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر کے شہریت کے حقوق دینے کا عمل شروع کیا ہے اس پر خود وادی کشمیر کے ہندو اور مسلمان سراپا احتجاج ہیں صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کے متعصب ہندوتوا کی حامی مودی سرکار نے لداخ کے بڑے حصہ کو کشمیر سے علٰیحدہ کر کے براہ راست دہلی سرکار کی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس طرح کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا یوں اب صرف جموں و کشمیر میں بھارت ہندوؤں کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کر کے اسے ہندو اکثریت ریاست قرار دے۔ اس مقصد کے تحت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ وہی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں جو اسرائیل نے فلسطینی عربوں سے اراضی ہتھیانے کے لیے استعمال کی اور آج بھی وہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں ان کی املاک گرانے، ان پہ قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔ یہی آج بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے۔ ان حالات میں جب ہم 5 فروری کا یوم یکجہتی منا رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں، جلسے ہوتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، یہ سب حکومت کی سطح پر ایک روٹین کی کارروائی بن رہ گئی ہے کیا اس طرح کی نمائشی تقریبات سے ہم بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اس کی ظالمانہ پالیسیوں سے روک سکیں گے؟ کشمیر اور کشمیریوں کو تحفظ دلا سکیں گے؟ پون صدی ہونے کو آرہی ہے یہ مسئلہ عالمی برادری کی عدم دلچسپی اور پاکستانی حکمرانوں کی بے توجہی کی نذر ہو رہا ہے۔ نہ بھارت نے کشمیر میں ظلم سے ہاتھ کھینچا، نہ ہم نے اس ہاتھ کو روکنے کی کوئی کوشش کی۔ اس بارے میں عوام کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے حکمران جب چپ سادھے بیٹھے ہیں تو عالمی برادری پر کون اثر ڈالے گا؟ بھارت اس کو دو طرفہ تنازع قرار دے کر صرف سرحدی تنازع قرار دے کر اس کی اہمیت ختم کر چکا ہے۔

تاشقند معاہدہ اور شملہ معاہدہ اس مسئلہ کو زک پہنچا چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ 5 فروری کے یوم یکجہتی پر اس مسئلہ کے حل کے لیے نت نئی راہیں تلاش کرنے پر عالمی برادری کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلہ کے حل کے لیے آمادہ کیا جائے، مردہ عالمی ضمیر کو جگایا جائے بجائے اس کے کہ کشمیری مسلمان اپنے ہی وطن میں جہاں وہ صدیوں سے اکثریت میں ہیں اقلیت بن کر رہ جائیں۔ ان کا بھی وہی حشر ہو جو بھارت میں آباد مسلم اقلیت کا ہو رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کو ساتھ لے کر ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ اس مسئلہ کے حتمی حل کی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اپنی جگہ درست ہیں مگر جب کشمیر میں مسلمان ہی اقلیت بن جائیں گے تو پھر ایسی رائے شماری کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ وہ تو خودبخود بھارت کی گود میں جاگرے گا اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موجودہ حالات کے تناظر میں نئے زاویے سے دیکھنا اور سوچنا ہوگا اس کے حل کے نئے پہلوؤں کو سامنے لانا ہوگا۔ 5 فروری کا تقاضا بھی یہی ہے اور مشن بھی کہ کشمیر اور کشمیریوں کو بھارت سے آزادی دلانے کے لیے ہمارے حکمرانوں سے جو بن پڑے وہ کریں۔ 75 سالہ خاموشی کی مہر توڑ دیں نئے جذبے اور ہوش و خرد کے ساتھ عالمی برادری کو ساتھ لے کر آگے چلیں۔ ورنہ بعد میں کہیں ساری بازی ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ بھارت نہایت تیزی سے کشمیر کی ہئیت تبدیل کر رہا ہے، اسے اپنا حصہ قرار دے کر وہاں عالمی سرمایہ کاروں کو لا رہا ہے جن میں عرب سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کو سختی سے کچل کر خاموش غلام بنا رہا ہے۔ ان کی نسل کشی کر کے املاک تباہ کر کے انہیں محتاج بنا رہا ہے اس پر زیادہ دیر خاموش رہنا خطرناک ہوگا…!!!